پاکستان

بلوچستان میں سکیورٹی کی ناکامیوں کا ملبہ لیویز پر ڈالنے کا عمل

عدنان عامر

گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ بلوچستان نے بلوچستان لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کا اعلان کرکے تنازعہ کھڑا کردیاہے ۔ اس اقدام نے صوبے بھر میں خدشات اور بحث کو جنم دیا ہے۔ اس بیانیے کو ہوا دیتے ہوئے، ایک نیوز اینکر نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ لیویز 92 ارب روپے خرچ کر رہی ہے، جو کہ حقیقت میں بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کا مشترکہ بجٹ ہے۔ اس گمراہ کن معلومات نے پہلے سے ہی نازک مسئلے میں مزید الجھنیں بڑھا دی ہیں۔ اس اقدام کے پیچھے صوبے میں سکیورٹی ناکامیوں کے لیے لیویز فورس کو قربانی کا بکرا بنانے جیسا ایک خطرناک رجحان ہے۔

لیویز کے کردار کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ڈھانچہ کس طرح ہے۔ انتظامی طور پر صوبہ ‘اے’ اور‘بی’ علاقوں میں تقسیم ہے۔ شہری مراکز ‘اے’ علاقوں کے تحت آتے ہیں اور ان کا انتظام پولیس کرتی ہے۔ اس کے برعکس دیہی علاقوں کو ‘بی’ علاقوں کے طور پر درجہ بند کیا جاتا ہے اور یہ بلوچستان لیویز کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس سرزمین کا صرف 18 فیصد کنٹرول کرتی ہے، جو زیادہ تر شہروں اور قصبوں پرمشتمل ہے، جبکہ لیویز بلوچستان کے وسیع اور اکثر چیلنج والے خطوں کے بقیہ 82 فیصد میں کام کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیویز صوبے کے بیشتر حصوں میں امن و امان کو برقرار رکھنے میں کتنی اہم ہے۔

لیویز کو 19ویں صدی کے آخر میں برطانوی راج نے مقامی کمیونٹی پولیس فورس کے طور پر قائم کیا تھا۔ برسوں کے دوران وہ دیہی علاقوں میں ایک قابل اعتماد سیکورٹی فورس بن چکے ہیں۔ ناقدین اکثر کہتے ہیں کہ لیویز کو قبائلی سردار کنٹرول کرتے ہیں۔ اگرچہ نوآبادیاتی دور میں یہ سچ تھا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ آج لیویز ڈپٹی کمشنرز (ڈی سی) کے انتظامی کنٹرول کے تحت کام کرتے ہیں، جو وفاقی یا صوبائی سول سروسز میں سے کسی ایک سے حکومت کے مقرر کردہ افسران ہیں۔ ڈی سی صوبائی حکومت کو رپورٹ کرتے ہیں۔ آپریشنل فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے لیے سرداروں کے لیے اب کوئی ادارہ جاتی جگہ نہیں ہے، پھر بھی اس پرانے دقیانوسی تصور کو بار بار طاقت کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا خیال آیا ہو۔ 2002 میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں لیویز کو پولیس میں ضم کر دیا گیا اور پورے صوبے کو‘اے’ ایریا قرار دے دیا گیا۔ اس تجربے کی لاگت 5 ارب روپے سے تجاوز کر گئی، لیکن اس بڑے پیمانے پر مالی انجیکشن کے باوجود سیکورٹی کی صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔ اس پالیسی کی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے نواب اسلم رئیسانی کی حکومت نے 2010 میں انضمام کو واپس لے لیا اور لیویز کو بحال کیا۔ اس بحالی پر ایک بار پھر اضافی لاگت آئی، لیکن صوبے نے ایک اہم سبق سیکھاکہ ایک اوپر سے نیچے اور ایک سائز کے لیے سب کے لیے موزوں قرار دینے کا طریقہ بلوچستان کی طرح متنوع اور پیچیدہ خطے میں کام نہیں کرتا۔

لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کی متعدد وجوہات ہیں جو نہ صرف غیر ضروری ہیں بلکہ نقصان دہ بھی ہیں۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم مالی بوجھ ہے۔لیویز فورس کو برقرار رکھنا پولیس فورس کو برقرار رکھنے کے مقابلے میں کافی سستا ہے۔ پولیس کے پاس تقریباً 47,000 اہلکار ہیں اور 51 ارب روپے کے سالانہ بجٹ کے ساتھ کام کرتے ہیں، جو علاقہ وہ کنٹرول کرتا ہیں اس کا رقبہ تقریباً 62,494 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی فی مربع کلومیٹر لاگت 821,396 روپے ہے۔ اس کے برعکس لیویز تقریباً 27,000 اہلکاروں پر مشتمل ہے، جو 22 ارب روپے کے بجٹ کے ساتھ کام کرتی ہے، اورکنٹرول میں علاقہ 284,696 مربع کلومیٹر کے بڑے رقبے پر محیط ہے، جو پولیس کے رقبے سے چار گنا زیادہ ہے۔ ان کی فی مربع کلومیٹر قیمت صرف 79,781 روپے ہے۔ یہ تقریباً 10 گنا سستا ہے۔ واضح طور پر لیویز کو پولیس میں ضم کرنے سے نتائج میں کسی ضمانت کی بہتری کے بغیر صوبے کے سیکورٹی کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔

مزید حیران کن بات یہ ہے کہ کم وسائل کے باوجود لیویز کے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں میں جرائم کی شرح تاریخی طور پر پولیس کے زیر انتظام علاقوں سے کم رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیویز کا نظام نہ صرف زیادہ کفایتی ہے بلکہ بہت سے معاملات میں زیادہ موثر بھی ہے۔ اس سے اسے ختم کرنے کی دلیل اور بھی کمزور ہو جاتی ہے۔

لیویز کا ایک اور بڑا فائدہ ان کا سماجی احتساب ہے۔ چونکہ لیویز کے اہلکار مقامی باشندے ہیں، اس لیے وہ ان کمیونٹیز میں گہرائی سے مربوط ہوتے ہیں جن کی وہ خدمت کرتے ہیں۔ دیہی بلوچستان جیسے قبائلی اور قریبی معاشرے میں کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ ان کے سیکیورٹی اہلکار کون ہیں اور اہلکاربھی بدلے میں اپنی ساکھ اور رشتوں سے باخبر ہیں۔ یہ اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف ایک طاقتور چیک کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کے برعکس پولیس کو اکثر بدعنوانی کے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں ثبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور رشوت لینا شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) کی جانب سے 2020 میں رول آف لاء روڈ میپ پروجیکٹ کے تحت کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں شہری قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے مقابلے لیویز کی کارکردگی سے زیادہ مطمئن ہیں۔ اس عوامی اعتماد کو تھوڑا سا بھی مجروح نہیں کیا جانا چاہیے۔

انضمام کے حامیوں کی طرف سے دی جانے والی ایک اور غلط دلیل یہ ہے کہ لیویز صوبے میں شورش کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ نہ تو لیویز اور نہ ہی پولیس انسداد بغاوت کی کارروائیوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ کردار نیم فوجی دستوں جیسے فرنٹیئر کور اور فوج کے لیے مخصوص ہے۔ لیویز پر باغیوں کو نہ سنبھالنے کا الزام لگانا ایسے ہی ہے جیسے کسی فائر فائٹر کو دل کی سرجری نہ کرنے پر مورد الزام ٹھہرایاجائے، یہ ان کا کام ہی نہیں ہے۔

حکومت لیویز فورس کو ختم کرنے کی بجائے اسے مضبوط بنانے پر توجہ دے۔ اس میں پاکستان کے کسی بھی دوسرے ادارے کی طرح بدعنوانی اور نا اہلی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بہتر تربیت، بہتر آلات اور نگرانی میں اضافہ شامل ہے۔ اصلاحات کا مقصد خاتمے کی بجائے صلاحیتوں میں اضافہ ہونا چاہئے۔ لیویز مقامی طور پر قبول شدہ، کم لاگت اور سماجی طور پر جوابدہ فورس ہے۔ زیادہ مہنگی اور کم بھروسہ مند فورس کے لیے راستہ بنانے کے لیے اسے ہٹانا کوئی معنی نہیں رکھتا، خاص طور پر اس صوبے کے لیے جو پہلے ہی مالی اور گورننس کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔

بلوچستان میں سکیورٹی چیلنجز حقیقی ہیں لیکن لیویز کو قربانی کا بکرا بنانے سے ان کا حل نہیں ہوگا۔ حکومت کو اس بیانیے کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کے عمل کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اس کی بجائے اسے زمین پر کام کرنے والے ہوشیار، لوکلائزڈ، اور کمیونٹی سے جڑے حل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ لیویز کا مسئلہ نہیں ہے۔ درحقیقت بہت سے طریقوں سے وہ اس مسئلے کے حل کا حصہ ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت بلوچستان اسے تسلیم کرے اور اس کے مطابق عمل کرے۔

(بشکریہ: ‘دی فرائیڈے ٹائمز’، ترجمہ : حارث قدیر)

Adnan Amir
+ posts

صحافی اور محقق عدنان عامر کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ بلوچستان کے معروف آن لائن انگریزی جریدے ’بلوچستان وائسز‘ کے مدیر ہیں۔ سیاست، تنازعات اور معیشت ان کے خاص موضوعات ہیں۔