جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے اور اس کا رائج شدہ بوسیدہ نظام تعلیم موجود ہے نوجوان یوں ہی اپنی زندگیوں کو ضائع کرتے رہیں گے۔ مقابلے بازی کی اس عفریت سے پیچھا چھڑانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ ایک اجتماعی اشتراکی معاشرے کے قیام سے ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اس نظام کی تلخیوں کو اپنے اندر سمو کر گھٹ گھٹ کے مرنے کے بجائے اس کے خلاف لڑائی کو ہر سطح پر منظم کرنا ہو گا اور ان مشکلات کے دلدل کو عبور کرتے ہوئے ایک نئے باب کا آغاز کرنا ہو گا جو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ماضی کے ان تمام اندھیروں کو ختم کر دے۔
سماجی مسائل
روزمرہ کے مسائل: اور تو اور دولہا بھی اپنی ہی شادی میں دیر سے آتا ہے
بائیں بازو کے ساتھیوں سے خاص طور پر کہنا چاہتا ہوں: وقت پر آنے سے نہ تو کوئی سرمایہ دار ہمیں روکتا ہے نہ ہی دیر سے پہنچنا کوئی سامراجی سازش ہے۔ اگر انقلاب کرنا ہے تو وقت پر آنا جانا شروع کریں۔
خود کشی کا بڑھتا ہوا رحجان
سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے ہی انسانی زندگی پر منڈی کی بے رحم قوتوں کے بجائے انسان کا اپنا اختیار قائم کیا جا سکتا ہے۔
سوشلسٹ سماج: مرد و عورت کی آزادی کا ضامن
ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش خواتین اس طبقاتی تفریق کو سمجھتے ہوئے ایک ایسی لڑائی لڑنے کی جانب جائیں جہاں محنت کش مرد و خواتین صنفی امتیاز سے بالا تر ہو کر باہمی جڑت بناتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑائی لڑیں تبھی آزادی حاصل ہو سکے گی۔
کیا پدر شاہی نظام کے خاتمے کے ساتھ خواتین کی آزادی ممکن ہے؟
اشتہاری نہ بناؤ تک تو بات سمجھ آتی ہے مگر خواتین کی عزت پردے میں ہے کہہ کر اسے سماج کے ہر ادارے سے نکال کر صرف خاندانی ادارے کے حوالے کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی شناخت سے بھی واقف نہ ہو سکے۔
عورت مارچ سوشلسٹ مارچ
پدر سری سرمایہ داری سے پہلے وجود میں آئی تھی۔ سرمایہ داری اور پدر سری کے ملاپ نے بے شک عورت پر جبر کو گمبھیر بنا دیامگر یہ کہنا کہ پدر سری سرمایہ داری کے خاتمے کے ساتھ خود بخود ختم ہو جائے گی، نعرے بازی کے سوا کچھ نہیں۔ محنت کش طبقے کے اندر بے شمار رجعتی رجحانات پائے جاتے ہیں۔
بڑھتے ہوئے جنسی جرائم اور بچوں کیخلاف تشدد کی وجوہات!
پسماندہ ممالک میں مشترکہ اور غیر ہموار سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کی وجہ سے یہاں کا معاشرہ زیادہ تضادات کا شکار ہے۔
خواتین کے خلاف تشدد اور رجعت پرستوں کی منافقت
جب ایک برس کی عمر کی معصوم بچیوں سے لیکر گھر میں مقید پردہ دار خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے، تب یہ رجعتی درندے آواز نہیں اٹھاتے۔
جاتی واد، نسل واد بارے ہندوستانی لیفٹ کے رجحانات اور جنگ کے بعد کا برطانیہ
آخرکار مارکس واد اور امبیدکر واد کو باہم اکٹھا کرتے ہوئے آپ جس نتیجے پہ پہنچے ہیں وہ ہے تہت ساری مختلف سطحوں پہ لڑنا۔
دنیا بھر میں روزانہ 137 خواتین اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں ہلاک ہوتی ہیں
ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر 15 سے 30 سال کی عمر کے دوران تقریباً 736 ملین خواتین یا ہر 3 میں سے 1 خاتون کو زندگی میں کم از کم ایک بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، ان اعداد و شمار میں جنسی ہراسگی کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔