سماجی مسائل


حیات ہی ہے بشر کا تمام سرمایہ

جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے اور اس کا رائج شدہ بوسیدہ نظام تعلیم موجود ہے نوجوان یوں ہی اپنی زندگیوں کو ضائع کرتے رہیں گے۔ مقابلے بازی کی اس عفریت سے پیچھا چھڑانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ ایک اجتماعی اشتراکی معاشرے کے قیام سے ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اس نظام کی تلخیوں کو اپنے اندر سمو کر گھٹ گھٹ کے مرنے کے بجائے اس کے خلاف لڑائی کو ہر سطح پر منظم کرنا ہو گا اور ان مشکلات کے دلدل کو عبور کرتے ہوئے ایک نئے باب کا آغاز کرنا ہو گا جو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ماضی کے ان تمام اندھیروں کو ختم کر دے۔

خود کشی کا بڑھتا ہوا رحجان

سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے ہی انسانی زندگی پر منڈی کی بے رحم قوتوں کے بجائے انسان کا اپنا اختیار قائم کیا جا سکتا ہے۔

سوشلسٹ سماج: مرد و عورت کی آزادی کا ضامن

ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش خواتین اس طبقاتی تفریق کو سمجھتے ہوئے ایک ایسی لڑائی لڑنے کی جانب جائیں جہاں محنت کش مرد و خواتین صنفی امتیاز سے بالا تر ہو کر باہمی جڑت بناتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑائی لڑیں تبھی آزادی حاصل ہو سکے گی۔

عورت مارچ سوشلسٹ مارچ

پدر سری سرمایہ داری سے پہلے وجود میں آئی تھی۔ سرمایہ داری اور پدر سری کے ملاپ نے بے شک عورت پر جبر کو گمبھیر بنا دیامگر یہ کہنا کہ پدر سری سرمایہ داری کے خاتمے کے ساتھ خود بخود ختم ہو جائے گی، نعرے بازی کے سوا کچھ نہیں۔ محنت کش طبقے کے اندر بے شمار رجعتی رجحانات پائے جاتے ہیں۔

دنیا بھر میں روزانہ 137 خواتین اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں ہلاک ہوتی ہیں

ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر 15 سے 30 سال کی عمر کے دوران تقریباً 736 ملین خواتین یا ہر 3 میں سے 1 خاتون کو زندگی میں کم از کم ایک بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، ان اعداد و شمار میں جنسی ہراسگی کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔