جو سماجی رسموں کے پنجرے میں ایک بلبل کی طرح مردوں کے رحم و کرم پر زندہ ہیں۔
نقطہ نظر
کرونا، مڈل کلاس اور نیا عمرانی معاہدہ: عاصم سجاد اختر اور جویریا جعفری کا مکالمہ
ہمارے کچھ فوری مطالبے ہیں مگر آنے والے دور میں ہم ایک مکمل تبدیلی چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر انسان کی عزتِ نفس اور بنیادی آزادیوں کا تحفظ ہو سکے، ہم ترقی کا ایک ایسا ماڈل چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ماحولیات کی تباہی نہ ہو، ہم انسانی دانش (بشمول ٹیکنالوجی) کے ذریعے منڈی کی معیشت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔
پرومیتھیس، کارل مارکس اور سائنٹفک سوشلزم: ایرک رحیم کی نئی کتاب
سات ابواب پر مشتمل یہ کتاب مارکس کے نظریاتی ارتقاکا ان کی زندگی کے پس منظر اور اس دورکے سیاسی اور اقتصادی منظر نامے کی روشنی میں بخوبی احاطہ کرتی ہے۔
امریکہ میں جاری مظاہرے ٹرمپ کی شکست کا باعث بن سکتے ہیں: مصطفی کیرل
اس مسئلے کو قومی سطح پر تعصب اور امتیازی سلوک کامسئلہ تسلیم کرنے کی بجائے اسے پولیس کے چند اہلکاروں کا مسئلہ قرار دے کر اقلیتوں اور افریقی نژاد امریکیوں کو مزید مزاحمت کا موقع فراہم کیاہے۔
وہ دن دور نہیں جب مولوی حضرات کوکنگ شو بھی کیا کریں گے
یک رخی ثقافت یا مونو کلچر سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا کلچر جس کا طریقہ کار ہی یہ بن جائے کہ وہ ایک ماسٹر سٹوری کے تابع ہو جائے…معاشرے میں ایک ہی بیانیہ غلبہ حاصل کر لے اور سوچ کاتنوع ختم ہو جائے۔
بطور سوشلسٹ میں نسل پرستوں کے بت گرانے کے خلاف ہوں
”ہم سوشلسٹ تخریب پر نہیں، تعمیر پر یقین رکھتے ہیں“۔
پاکستانی ’نسل پرستی‘: چند تجربے اور مثالیں
شنید ہے کہ سنتھیا رچی کا ویزہ 2 مارچ کو ختم ہو گیا تھا لیکن مجال ہے ان کے ساتھ قانون کے مطابق وہ سلوک کیا گیا ہوجو افغان مہاجرین کے ساتھ کیا جاتا ہے یا تارکین وطن کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
’نسلی تعصب کو ختم کرنا ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں، اِسکے پیچھے 400 سال کی تاریخ ہے‘
ادھرصدر ڈونلڈ ٹرمپ افریقی نژاد شہریوں سے انصاف ا ور امن و امان کی تلقین کے ذریعے لوگوں کے غصے کو کم کرنے بجائے دھمکی آمیز لہجہ اختیا ر کئے ہوئے ہیں اور ریاستی گورنروں کو مظاہرین کے خلاف سخت کاروائیوں کے مشورے دے رہے ہیں۔
سیاسی حکمرانوں کی پولیس افسروں سے تعزیتیں اور مبارکیں جمہوریت کو مہنگی پڑتی ہیں
ہمارے سیاسی حکمرانوں کو اس حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ وہ عوام کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں (خاص طور پر موجودہ حکمرانوں کو) اور وہ کسی کی ’نظر ِکرم‘ کی وجہ سے اس عہدے پر براجمان ہیں۔
زارا عابد کو جہنم کی ٹکٹ دینے والوں اور ہندتوا برگیڈ میں کوئی فرق جو جہاز کریش ہونے پر بغلیں بجا رہے تھے؟
آپ انہیں کبھی حکمرانوں کے کرتوتوں پر بات کرتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔