’روزنامہ جدوجہد‘ان چاروں بہادر صحافیوں کو خراج ِعقیدت پیش کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ ان چاروں کی شروع کی ہوئی جدوجہد کو جاری رکھا جائے گا۔

’روزنامہ جدوجہد‘ان چاروں بہادر صحافیوں کو خراج ِعقیدت پیش کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ ان چاروں کی شروع کی ہوئی جدوجہد کو جاری رکھا جائے گا۔
یہ نام افغانستان کے بہتر مستقبل کی امید میں اورماں کے آنے والے اچھے دنوں کا سوچ کر امید رکھا گیا۔
عالمی اور مقامی میڈیا کی سرفنگ کرنے کے بعد مجھے وہ نسل پرست برطانوی صحافی یاد آیا جس نے کہا تھا کہ اخبار کے لئے ہزار مینڈکوں (مراد افریقی) کے مرنے کی اتنی اہمیت ہوتی ہے جتنی پچاس بھوروں (مراد ایشین) کی اور پچاس بھوروں کے مرنے کو اتنی کوریج ملتی ہے جتنی ایک انگریز کی موت کو۔
شہروں کے اندر 61 فیصد گھروں میں ایک ہفتے کا مناسب راشن خریدنے کی سکت مفقود تھی۔