حکومت نے آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے عوام بالخصوص سرکاری ملازمین کا جینا دشوار کردیا ہے۔

حکومت نے آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے عوام بالخصوص سرکاری ملازمین کا جینا دشوار کردیا ہے۔
یہاں حکمران طبقہ کسی قسم کے اختلاف رائے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ سلیم شہزاد، عمر چیمہ، حامد میر، احمد نورانی اور اب مطیع اللہ جان۔ جو صحافی سرکاری احکامات سے رو گردانی کرتا ہے، اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور قانون بے بس دکھائی دیتا ہے۔
غریب افراد اور ممالک کا حصہ آلودگی پھیلانے میں کم ہے مگر ماحولیاتی آلودگی اور تبدیلی کا وہ زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
عمر البشیر کی آمریت کا موازنہ کافی حد تک پاکستان میں ضیا الحق کی آمریت سے کیا جا سکتا ہے۔
ہندو قوم پرستی کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو انڈین قوم پرستی کے حصے میں آئی۔
صحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کے بارے میں لکھے جنہیں حکومت دبانایا چھپاناچاہتی ہے۔
وہ کہتے تھے کہ مہنگائی ہو تو سمجھو وزیر اعظم چور ہے، مہنگائی آج روز ہر گھر کے دروازے پردستک دے رہی ہے۔ ان کا فرمان تھا کہ اوپر ایماندار وزیر اعظم ہو تو کسی کی جرات نہیں کہ بدعنوانی کرے، آج روز ایسے ایسے کیس سامنے آرہے ہیں کہ ماضی کے اسکینڈل بھول جاتے ہیں۔ جیو کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے آج اس کے مالک کو بند کیا ہوا ہے۔ گویا ایک لمبی فہرست ہے۔
یہ انتخابات ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں۔
ان کی اس سازشی تھیوری کو امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ری ٹویٹ کیاتھا۔
سابق صدر اوبامہ نے جان لو ئیس کی طرح سی ٹی ویوین کوبھی وائٹ ہاؤس میں آزادی کے صدارتی میڈل سے نوازا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان دونوں رہنماؤں کی ان تھک جدوجہد اور قربانیوں کا ہی نتیجہ تھاجس نے صدر اوبامہ جیسے افریقی النسل رہنما کو امریکہ کے ایوانِ اقتدار میں پہنچایا اور اقلیتوں کو ان کے حقوق کا احساس دلایا۔