Month: 2024 اگست


بنگلہ دیش: طلبہ و مسلمان مندروں، گرجا گھروں کی حفاظت پر معمور

بنگلہ دیش میں طلبہ رہنماؤں نے حامیوں سے ہندو مندروں اور گرجا گھروں کی حفاظت کرنے کی اپیل کی ہے۔ قبل ازیں سفارتکاروں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے عوامی بغاوت کے دوران وزیراعظم کے استعفیٰ کے بعد اقلیتی گروہوں پر حملوں کی رپورٹوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

کچھ بنگلہ دیش کی حالیہ طلبہ تحریک کے بارے میں

تحریکیں چلیں گی۔ ناکام ہوں گی۔ حالات پہلے سے زیادہ برے ہو سکتے ہیں۔ لوگ سیکھیں گے۔ ناکامی کی صورت میں بھی انقلابی قوتوں کو مقداری و معیاری حوالے سے تعمیر کے مواقع مل سکتے ہیں۔ جزوی یا کلی کامیابیاں بھی ملیں گی۔ تاریخ ایسے ہی آگے بڑھے گی۔ آخری تجزئیے میں انسان ہی تاریخ بناتے ہیں۔ وہ اگر ناکامی کے خوف سے بغاوتیں نہیں کریں گے تو ناکامی سے کہیں پہلے بربریت اور ذلت میں غرق ہو جائیں گے۔ جو کوئی تاریخ کے اس عمل کو سمجھنے سے قاصر ہے یا سمجھنا ہی نہیں چاہتا اس کی مناسب جگہ تاریخ کا کوڑے دان ہی ہے۔

جموں کشمیر یکجہتی کانفرنس 17 اگست کو واشنگٹن میں ہوگی

پریس کانفرنس میں انکا کہنا تھا کہ ساؤتھ ایشیا سالیڈیرٹی نیٹ ورک کا مقصد جنوبی ایشیا اور اس سے باہر جاری جدوجہد کے ساتھ یکجہتی پیدا کرنا ہے۔ باہمی تعاون، تجربات کے اشتراک اور ایک دوسرے سے سیکھ کر ایک یکجا کاوش کے ذریعے ہم ایک بہتر جنوبی ایشیا اور ایک بہتر دنیا کی جدوجہد کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

’حسینہ فرار نہ ہوتیں تو ان کی لنچنگ ہو جاتی، لوگ سری لنکا ڈھاکہ میں دہرانا چاہتے تھے‘

(ہنستے ہوئے)بنگلہ دیش کی فوج عبوری حکومتیں بنانے کی مہارت رکھتی ہے۔ اچھے انداز میں بھی۔برے انداز میں بھی۔ مارشل لا تو نہیں لگا۔ عبوری حکومت بنے گی۔ادہر طلبہ کل (منگل کے روز) پریس کانفرنس کریں گے۔ ابھی تک افواہ یہ ہے کہ طلبہ نے فوجی سر براہ سے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ صدر سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس سب سے قطع نظر، طلبہ حزب اختلاف کے 31 نکات پر عمل درآمد کی بات کرتے آئے ہیں۔ اس منشور کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کو جمہوری بنایا جائے۔ جبر کا خاتمہ ہو۔مختلف طرح کی اصلاحات ہوں۔طلبہ اس ملک کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔ ہو گا کیا،یہ ابھی دیکھنا ہو گا۔

حسینہ واجد سیکولرازم کے نام پر جابرانہ اقدامات کر رہی تھیں

وہ اپنی آمرانہ حکومت کا جواز اپنی معاشی ترقی کو بتاتی تھیں۔ پاکستان میں بھی اکثر لبرل حضرات حسینہ واجد کی ترقی کو مثال بنا کر پیش کرتے رہے۔ لبرل لوگ بنگلہ دیش کے اندرونی حالات کا جائزہ لئے بغیر،حسینہ واجد کو خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ خاص طور پر مذہبی جنونی قوتوں کے خلاف آمرانہ اقدامات 1971 کی جنگ کے مجرموں کو پھانسی کی سزاؤں کو مذہبی جنونیت سے چھٹکارے کا حل بتایا جاتا رہا۔ مذہبی جنونیت کا پھیلاؤ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اسے فوجی آپریشنوں، پھانسیوں اور آمرانہ اقدامات سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا حل سیاسی ہے اور سیاسی میدان میں مذہبی جنونیت کے نظریات کا جواب دینے سے ہی ان کو شکست دی جا سکتی ہے۔

سوشلسٹ کرنل کی قیادت میں بنگلہ دیش کا ’سپاہی انقلاب‘ جو 2 ہفتے بعد ناکام ہو گیا

’ہمارا انقلاب محض ایک قیادت کو دوسری قیادت سے تبدیل کرنا نہیں ہے۔ یہ انقلاب ایک مقصد کیلئے ہے، یعنی مظلوم طبقات کے مفاد کیلئے۔ اس کیلئے مسلح افواج کے پورے ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ کئی دنوں تک ہم امیر طبقے کی فوج تھے۔ امیروں نے ہمیں استعمال کیا ہے۔ ان کے اپنے مفادات کی 15 اگست کے واقعات ایک مثال ہیں۔ تاہم اس بار ہم نے نہ تو امیروں کیلئے بغاوت کی ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے کی ہے۔ اس بار ہم نے ملک کے عوا م کے شانہ بشانہ بغاوت کی ہے۔ آج سے قوم کی مسلح افواج اپنے آپ کو ملک کے مظلوم طبقات کے محافظ کے طور پر استوار کریں گی۔‘

اسمعیل ہنیہ، ایمان خلیف اور پاکستانی معاشرے کا سرکاری تعفن

جس طرح عورت دشمنی اور دایاں بازو لازم و ملزوم ہیں اسی طرح ٹرانس فوبیا اور دایاں بازو لازم و ملزوم ہیں۔مزید یہ کہ عالمی کھیلوں میں اکثر غیر سفید فام کھلاڑیوں کو اس قسم کی نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امہ کی محبت میں گرفتار الباکستانی ایمان خلیف کے ساتھ کھڑے ہوتے۔مگر نہیں۔ الباکستانی،مڈل کلاس، دایاں بازو۔۔۔مظلوم،کمزور اور پسے ہوئے طبقات کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتے۔سچ اور جھوٹ بھی ان کے لئے اہم نہیں ہوتا۔کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران الباکستانی بھارت اور افغانستان سے اتنی نفرت کا اظہار نہیں کرتے جتنی نفرت کا اظہار پچھلے ہفتے ایمان خلیف سے کیا گیا۔
ایمان خلیف نے تمام ٹرانس فوبک الباکستانیوں کے منہ پر زور دار پنچ مارا ہے! جینڈر کی بناید پر نفرت کا بہترین جواب یہی ہو سکتا تھا۔

صحافی نبیل انور کو دھمکیاں دینے کی مذمت، تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ

انہوں نے مطالبہ کیا کہ نبیل انور کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والوں کے کلاف فوری کارروائی کی جائے۔ میڈیا والوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ان لوگوں کے خلاف بروقت کارروائی کی جائے جو نبیل انور کے خلاف مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلا رہے ہیں۔

خلیل الرحمن پاکستان کا ثقافتی عمران خان ہے

یہی حال خلیل الرحمن قمر کا ادبی حوالے سے ہے۔ ادب مظلوم کی ٓواز بننے کا نام ہے۔ ادب فیض احمد فیض، حبیب جالب،استاد دامن،شیخ ایاز اور میر گل نصیر خان کی میراث ہے۔یہ امریتا پریتم اور فہمیدہ ریاض کی روایت ہے۔ خلیل الرحمن کا ادب بے ادبی کی بد ترین بلکہ متشدد شکل ہے۔ بلا شبہ عمران خان کی سیاست کی طرح،خلیل الرحمن قمر کے کھیل بہت مقبول ہوئے ہیں لیکن اس کی وجہ وہی ہے جو عمران خان کی سیاسی مقبولیت کی وجہ ہے: رجعتی بلکہ جنونی مڈل کلاس۔ایک ایسی مڈل کلاس جو وینا ملک ڈس آرڈر کا شکار ہے۔