اقوام متحدہ نے پیرکو کہا کہ جنوبی ایشیا میں زیادہ بچے پانی کی شدید قلت کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پانی کی شدید قلت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں کسی بھی جگہ سے زیادہ بدتر ہو گئی ہے۔

اقوام متحدہ نے پیرکو کہا کہ جنوبی ایشیا میں زیادہ بچے پانی کی شدید قلت کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پانی کی شدید قلت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں کسی بھی جگہ سے زیادہ بدتر ہو گئی ہے۔
گوگل کے سابق سی ای او، ڈیل کے سی ای او اور فنانسر سمیت 50 سے زیادہ افراد کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ کار بل ایکمین جیسے کچھ سرمایہ کار ایسے بھی ہیں، جنہوں نے کھلے عام دھمکی دی ہے کہ وہ فلسطین کے حامی طلبہ کو بلیک لسٹ کر دینگے۔ ایکمین نے ٹویٹر پر لکھا کہ وہ اور دیگر کاروبار ایگزیکٹوز چاہتے ہیں کہ آئیوی لیگ کی یونیورسٹیاں ان طلبہ کے ناموں کا انکشاف کریں، جو غزہ میں اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے کھلے خطوط پر دستخط کرنے والی تنظیموں کا حصہ ہیں۔
”یہ دیکھنا ناقابل یقین ہے کہ سینکڑوں مصنفین اور صحافیوں نے اس کارروائی میں حصہ لیا۔ کیونکہ یہ ہمیں بتا رہا ہے کہ صحافتی بددیانتی، جنگی جرائم سے انکار اور فلسطینیوں کی زندگیوں کے ساتھ کم تر سلوک کرنا اور فلسطینیوں کی مزاحمت کو شیطانی قرار دیکر بدنام کرنا، غیر انسانی بنانا اب مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ اگر ہم سچے ہونے جا رہے ہیں اور اگر ہم اس پیشے کے اصولوں کے ساتھ وفادار رہنا چاہتے ہیں تو ہم اپنے پیشہ کو کہتے ہیں۔“
کئی دہائیوں سے سوڈان کی مرکزی حکومت نے دارفور میں غیر عرب کسانوں اور عرب چراگاہوں کو نظر انداز کیا۔ سابق صدر عمر البشیر نے بھی تقسیم اور حکومت کی حکمت عملی کے تحت قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر کے کشیدگی کو بڑھاوا دیا۔ 2003میں انہوں نے عرب قبائلی ملیشیا کو مسلح کیا اور انہیں زیادہ تر غیر عرب بغاوت کو کچلنے کا کام سونپا گیا۔ اس بغاوت کا آغاز دارفور کی معاشی اور سیاسی پسماندگی کے خلاف مظاہروں سے ہوا تھا۔
ایک تاجر حبیب اللہ، جو گزشتہ40سال سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں امید تھی کہ افغانستان کی اجنبی سرزمین پر جا کر وہ اس رقم سے اپنی زندگی دوبارہ شروع کر سکیں گے۔ تاہم اپنی محنت سے کمائی ہوئی چیزیں ساتھ رکھنے کی اجازت نہ دے کر ان کی یہ امید بھی توڑ دی گئی ہے۔
انہوں نے ’ٹائمز‘ اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ ”میں نہیں مانتی کہ یہ مارچ صرف غزہ کی مدد کی مانگ کر رہے ہیں۔ وہ بعض گروہوں، خاص طور پر اسلام پسندوں کی طرف سے بالادستی کا دعویٰ ہیں۔ جس طرح ہم شمالی آئرلینڈ میں دیکھنے کے زیادہ عادی ہیں۔ یہ خبریں بھی پریشان کن ہیں کہ مارچ کے کچھ منتظمین کے حماس سمیت دہشت گرد گروپوں کے ساتھ روابط ہیں۔“
حال ہی میں روس نے ’سویڈیٹل‘(گواہ)کے نام سے جاری جنگ کے بارے میں پہلی فیچر فلم ریلیز کی ہے۔ یہ فلم اگست میں روس کے 1131سینما گھروں میں ریلیز کی گئی۔ جارحانہ اشتہار بازی اور مسابقت کا ہر راستہ روکنے کے باوجود 2ملین ڈالر کے بجٹ سے تیار ہونے والی یہ فلم پہلے چار دنوں میں محض 70ہزار ڈالر کمانے میں کامیاب ہو پائی۔
اسی طرح بلوچستان کے وسطی اور مشرقی علاقوں میں اردو میں مذہبی لٹریچر بڑے پیمانے پر پڑھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچی مصنفین اور قارئین زیادہ تر مکران میں مقیم ہیں لیکن ان کے سامعین بھی زیادہ تر مکران میں مقیم ہیں۔ مکران کے اضلاع میں سے ایک پنجگور بھی نسبتاً مذہبی نوعیت کا ہے۔ مخلوط تعلیم اور پرائیویٹ سکولوں کو حالیہ برسوں میں مذہبی انتہا پسندوں نے بند کر دیا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بلوچی زبان میں چند رسائل ہیں،جو صرف مذہبی امور پر گفتگو کرتے ہیں۔
ان اختلافات اور مختلف سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی ان کو حل کرنے میں ناکامی نے بلوچستان میں علم کی پیداوار کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس جمود کا حتمی نقصان بلوچ شہریوں اور خاص طور پر نئی نسلوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ حقیقت اور پروپیگنڈے میں فرق کرنا ایسا نہیں ہے جس کا انہیں بوجھ برداشت کرنا چاہیے، لیکن یہ ایک بوجھ ہے جسے وہ اٹھانے پر مجبور ہیں۔
لیکن آج بالشویک انقلاب کے 102 سال بعد سوال یہ ہے کہ کیا سرمایہ داری انسانیت کے مسائل حل کر رہی ہے یا انہیں زیادہ گھمبیراور پیچیدہ بنا رہی ہے؟ امارت اور غربت کی خلیج اتنی وسیع پہلے کبھی نہ تھی جتنی آج ہے۔ جہاں سات افراد کے پاس دنیا کی آدھی آبادی سے زائد دولت ہے۔ ایک طرف غربت، بیروزگاری اور محرومی کی نہ ختم ہونے والی ذلتیں ہیں‘ دوسری طرف ماحولیات کی تباہی ساری نسل انسان کے وجود کے لئے ہی خطرہ بن رہی ہے۔ پچھلے سو سال میں بہت کچھ بدل گیا ہو گا لیکن طبقاتی تضاد اور جبر و استحصال کم نہیں بلکہ شدید ہی ہوئے ہیں۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں‘ لبنان، ایکواڈور، چلی، فرانس، سپین اور عراق سمیت دنیا کے بیشتر ممالک بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہروں اور عوامی تحریکوں کی زد میں ہیں۔
معروف مارکسی نظریہ دان اور فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما، ارنسٹ مینڈل، کا ایک مشغلہ تھا جاسوسی ادب پڑھنا۔ ایک بار انہوں نے جاسوسی ادب بارے ایک تفصیلی مضمون لکھا جس میں جاسوسی ادب کا مارکسی جائزہ لیا گیا۔ یہ طویل مضمون ان کی آن لائن آرکائیو میں موجود ہے۔
اپنے مضمون میں انہوں نے ایک دلچسپ نتیجہ یہ اخذ کیا کہ جاسوسی ادب میں ابتدائی طور پر پرائیویٹ طور پر کام کرنے والے جاسوس کیس حل کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سرمایہ داری کا ابھار ہو رہا تھا۔ ایک بار جب سرمایہ دارانہ ریاستیں مستحکم طور پر قائم ہو گئیں تو مسٹر ی کیس کو حل کرنے کا کام جاسوسی ادب میں بھی زیادہ تر ریاست یعنی پولیس یا سی آئی ڈی طرح کے اداروں نے سنبھا ل لیا۔