اگر ایک سماجی تحریک موجود ہو تو ہم اس نظام کا حلیہ بدل سکتے ہیں۔

اگر ایک سماجی تحریک موجود ہو تو ہم اس نظام کا حلیہ بدل سکتے ہیں۔
عراق اور لبنان میں اٹھنے والی حالیہ لہروں کے بعد تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ خطہ فرقہ وارانہ عدم رواداری کے خلاف بھی مزاحمت کا ہراول بن گیا ہے۔
لاہور لیفٹ فرنٹ اور طبقاتی جدوجہد کے زیر اہتمام اس تعزیتی ریفرنس میں کامریڈ لال خان (ڈاکٹر یثرب تنویر گوندل) کے قریبی دوست ان کی انقلابی خدمات کو خراج تحسین پیش کریں گے۔
”مجھے بہت برا محسوس ہو رہا ہے۔ سچ کا نقصان ہو رہا ہے۔ لوگوں کو نا کافی معلومات فراہم کی جا رہی ہیں“۔
کھیل کا ایک اہم پہلو نسل پرستی کی بد نما سیاست کو ننگا کرنا بھی ہے۔
ان فسادات کا واضح مقصد شہریت ترمیم بل کے مسئلے پر ہفتوں سے جاری احتجاج کو بزور تشدد ختم کرنا تھا۔ اس کا واضح ثبوت بی جے پی کے رہنما کپل شرما کا یہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ”اگر پولیس نے ٹرمپ کا دورہ ختم ہونے تک دھرنے ختم نہ کروائے تو بی جے پی خود کروا لے گی اور اگر ٹرمپ کا دورہ نہ ہو رہا ہوتا تو وہ مظاہرین سے خود نپٹ لیتے“۔
تقریب میں شریک کامریڈ لال خان کے قریبی ساتھیوں اور دوستوں نے ان کی زندگی اور سوشلزم کے نظریات کیلئے ان کی جدوجہد پر روشنی ڈالی۔
کامریڈ لال خان کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس 28 فروری بروز جمعہ سہ پہر دو بجے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان(ایچ آر سی پی)، کے درآب پٹیل ایڈیٹوریم، 107 ٹیپو بلاک نیو گارڈن ٹاؤن، لاہور میں منعقد ہو گا۔
ڈاکٹر لال خان طبقاتی جدوجہد کے سْرخیل ٹھہرے، پچھلی تین ساڑھے تین دہائیوں میں ڈاکٹر لال خان لاہور کی مجلسی زندگی کی رونق رہے۔
لال خان ایک شاندار مقرر تھے اور کوئی بھی ان کی مارکسی تاریخ کے علم سے میل نہیں رکھتا تھا۔ وہ بالشوازم خاص طور پر لیون ٹراٹسکی کی ایک سیاسی لغت تھے۔ نوجوانوں کو تحریک دینے کی ان میں کرشماتی صلاحیت موجود تھی۔ وہ بغیر نوٹس کے گھنٹوں اپنے سامعین کو مسحور رکھنے پر قادر تھے۔ ان کی تنظیم ”طبقاتی جدوجہد“ کی اٹھان میں ایوان اقبال لاہور میں منعقد کردہ سالانہ کانگریسوں کو خصوصی اہمیت حاصل رہی جس میں سینکڑوں مندوب دو دن کیلئے جمع ہوتے اور پاکستان کے سیاسی تناظر میں تنظیمی اور سیاسی ترجیحات کا تعین کیا جاتا۔