ایک سروے کے مطابق یورپ میں 47 فیصد لوگ ماحولیاتی تبدیلی کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق یورپ میں 47 فیصد لوگ ماحولیاتی تبدیلی کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
مظاہرین یہ کہتے نظر آئے کہ وہ ان سب کا استعفیٰ چاہتے ہیں۔
’تم نے ایک مشال شہید کیا تھا‘ آج گلی گلی میں مشال پیدا ہو چکے ہیں۔‘
طلبہ کی تحریکوں کا انقلابات میں ایک اہم ابتدایہ کا کردار بنتا ہے۔ شاید اسی صورت حال کو مدِ نظررکھتے ہوئے ٹراٹسکی نے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ طلبہ درختوں کی بلند ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آنے والے انقلابی طوفانوں میں سب سے پہلے جھولنے لگتی ہیں اوران انقلابی ہواؤں کی آمد کا پیغام دیتے ہیں۔
منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔ جہاں پلازوں میں مختلف انٹرنیشنل برانڈ کی دکانیں ہیں، انہی پلازوں میں ڈربہ نما کمروں کو یونیورسٹی اور کالج کا نام دیا جا رہا ہے۔ ریاست تعلیم کی فراہمی میں مکمل طور پر نااہل ہے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں کے بعد تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہے۔
قوی امکانات ہیں اس ملک میں ناگزیر ضرورت بن جانے والی انقلابی تحریک کی پہلی چنگاری طلبہ تحریک سے ہی ابھرے گی۔ طلبہ کو اپنے بنیادی حقوق کی لڑائی کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد سے جوڑنا ہوگا، جو تمام تر ذلتوں اور مسائل کی جڑ ہے۔اس عظیم مقصد میں انہیں محنت کشوں اور غریبوں کے لئے اپنے دل میں عاجزی اور احترام کے جذبات پیدا کرنا ہوں گے، ان سے سیکھنا ہو گا۔ اسی صورت میں وہ محنت کش طبقے کے ساتھ جڑت بنا کر تاریخ کا دھارا موڑ سکتے ہیں۔
معاشی ناانصافیاں ہی سماجی تفریق اور سیاسی چپقلش کی بنیاد ہیں۔
ان نئی ابھرنے والی آوازوں میں سے ایک آواز ”طلبہ یکجہتی مارچ“ ہے جو 29 نومبر کوملک کے مختلف شہروں میں نکالا جا رہا ہے۔
ہم طلبہ اور مزدور تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کررہے ہیں۔ مہنگائی کم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ لاہور میں 29 نومبر ملکی تاریخ کا ایک نیا باب لکھنے کادن ثابت ہوگا۔ طلبہ اور مزدور لال جھنڈے لہراتے ہوئے اپنے مطالبات کو پیش کریں گے۔
یہ ایک نجی ادارے کا چند گھنٹوں کا سوشل میڈیا کا سروے ہے جس کا نتیجہ ہمارا سامنے واضح ہے اور یہی حقیقت ہے کہ پاکستان میں طلبہ کی اکثریت یونین سازی کے نہ صرف حق میں ہے بلکہ اب وہ یہ حق چھیننے کے لیے بھی تیار ہے جس کا اظہار 29 نومبر کو درجنوں شہروں میں ہونیوالے طلبہ یکجہتی مارچ میں ہوگا۔