میڈیاکو میسر آزادی کا تعلق اس بات سے ہے کہ جس معاشرے اور ریاست میں وہ میڈیا کام کر رہا ہے وہاں کس قدر جمہوری آزادیاں میسر ہیں۔
مزید پڑھیں...
کیا تاریخ ختم ہو چکی ہے؟
فوکو یاما کے پیروکار درحقیقت سرمایہ داری کی اپنی بربادی اور تاریخ متروکیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
رنجیت سنگھ کا مجسمہ لگ سکتا ہے مگر بھگت سنگھ چوک نہیں بن سکتا!
بھگت سنگھ کے مجسمے کی اپیل رنجیت سنگھ کے مجسمے سے کہیں وسیع ہوتی کہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ تو مذہبی بنیادوں پر ایک مفروضہ شاندار ماضی کی بحالی کی علامت ہے۔
”نمک حرامی“ کا دوسرا پہلو
مہاجر کی زندگی جیسے دشوار ہوتی ہے ویسے ہی زیادہ تر افغان مہاجرین نے انتہائی کٹھن حالات میں زندگی گزاری۔
کابل بم دھماکہ، ”حرام خور“ والا بیانیہ اور منافقت
دائیں بازو کا یہ بیانیہ نہ صرف منافقت پر مبنی ہے بلکہ محنت کش طبقے اور ترقی پسند تحریک کے نقطہ نگاہ سے اس کے بے رحمانہ نتائج نکل رہے ہیں۔
واشنگٹن ٹرمپ انتظامیہ کے گھیرے میں!
کتاب قاری کو صدر ٹرمپ کی مرکزی انتظامیہ کا وہ رُخ دکھاتی ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر عملے کی تبدیلی اورپیشہ ورانہ افراتفری سیاست کے سنہری اصول بن چکے ہیں۔
نفرتوں کے کھیل‘ کھیلوں کی نفرت…
اصل حرام خور جنوب ایشیا کے ممالک کے حکمران طبقات (اور ان کے سامراجی آقا) ہیں جنہوں نے عوام کو نفرتوں کے سوا کچھ نہیں سکھایا۔
غیر ملکی سرمایہ کاری سے جڑی کچھ خوش فہمیاں اور حقائق
تجارتی اور مالیاتی خساروں نے ان غریب ممالک کی بدعنوان حکومتوں کو مجبورکیا کہ وہ سامراجی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مطیع ہو جائیں۔
افغانستان کی کوریج: بی بی سی اردو اور اے آر وائی میں کوئی فرق نہیں!
شاید بی بی سی اردو بھی ویسے ہی دباؤ کا شکار ہے جس کا سامنا باقی میڈیا اداروں کو ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنائیں گے نہ کالج‘ صرف لوگوں کو بیوقوف بنائیں گے!
باجوڑ یا وزیرستان میں یونیورسٹی کیوں نہیں بنائی جاتی؟ یہ یونیورسٹی بلوچستان، تھر پارکر یا سرائیکی وسیب میں کیوں نہیں بنائی جا رہی؟