فاروق سلہریا
ایف ایس مائیکلز نے اپنی کتاب میں یک رخی ثقافت (Mono Culture) کا ایک دلچسپ تصور پیش کیا ہے۔ یک رخی ثقافت یا مونو کلچر سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا کلچر جس کا طریقہ کار ہی یہ بن جائے کہ وہ ایک ماسٹر سٹوری کے تابع ہو جائے…معاشرے میں ایک ہی بیانیہ غلبہ حاصل کر لے اور سوچ کاتنوع ختم ہو جائے۔
ایف ایس مائیکلز کے مطابق جب ایسا ہو جائے تو انسان اسی بات کو حقیقت تسلیم کرتا ہے جو مروجہ ماسٹر سٹوری میں حقیقت کے طور پر پیش کی گئی ہو۔ انسان غیر شعوری طور پر کچھ چیزوں پر یقین لے آتا ہے اور بعض دیگر باتوں کو ماننے پر تیار ہی نہیں ہوتا۔ یہی یک رخی ثقافت کی کامیابی ہے۔ ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا مگر مونو کلچر ہمیں ایک خاص سمت میں دھکیل رہا ہوتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ مونو کلچر ایک اَن دیکھا ڈھانچہ (سٹرکچر) بن جاتا ہے جس کی ایک اَن دیکھی مگر مضبوط بنیاد بھی موجود ہوتی ہے۔ ہم دنیا کو مونو کلچر کی عینک سے دیکھ کر دنیا کی تشریح کرتے ہیں۔
مونو کلچر ہمیں بتاتا ہے کہ نارمل کیا ہے اور ہمیں زندگی سے کیسی توقعات رکھنی ہیں۔ یہ ہماری زندگی کی حدود و قیود کا تعین کرتا ہے۔ مونو کلچر ہمیں بتاتا ہے کہ جو بیانیہ ماسٹر سٹوری کی نفی کرے اُس پر اعتبار نہیں کرنا، اُس سے خوف کھانا ہے۔
ایف ایس مائیکلز کے بقول مونو کلچر کا یہ مطلب نہیں کہ سب ایک ہی ڈھب سے جی رہے ہیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ان کے کلیدی نظریات ایک جیسے ہیں۔
ایف ایس مائیکلز کی تنقید کا نشانہ تو سرمایہ داری کے تحت مغربی بالخصوص امریکی کلچر میں تنوع کی موت ہے لیکن اگر پاکستان کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ ملائیت یہاں کا مونو کلچر بن چکا ہے۔
کرونا کا بحران پیدا ہو ا ہے تو ڈاکٹر اور سائنسدان کی رائے کسی اہمیت کی حامل نہیں۔ مولانا طارق جمیل سے دعاکرائی جا رہی ہے۔ اذانیں دی جا رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ہمیں بتا رہے ہیں کہ جب ہم سو جاتے ہیں تو کرونا بھی سو جاتا ہے اور جب ہم مر جاتے ہیں تو ہمارے ساتھ کرونا بھی مر جاتا ہے۔
ہمارے پاس پرویز ہود بھائی جیسے عالمی شہرت یافتہ سائنس دان موجود ہیں مگر زمین گول ہے یا چپٹی، ساکن ہے یا متحرک اس کا فیصلہ مدنی چینل کرے گا۔
ہمارے ہاں اکبر زیدی اور قیصر بنگالی جیسے ماہرین معیشت موجود ہیں مگر بینکاری کے حلال حرام ہونے کا فیصلہ مولانا خادم رضوی کریں گے۔
ہمارے ہاں سپارکو کی شکل میں ایک پورا ادارہ موجود ہے اور پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں سے ایک ہے جن کے سیٹلائٹ خلاوں میں گھوم رہے ہیں مگر چاند دیکھنے والی دوربین مفتی منیب الرحمن اور رویت حلال کمیٹی کے پاس ہے۔
پاکستان نے دنیا کے بہترین کرکٹر پیدا کئے ہیں مگر سلیکشن کمیٹی کا چیئرمین مولانا طارق جمیل کی مرضی سے لگتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ خود کلچرل ورکرز مولانا طارق جمیل کا بیان سنتے ہیں۔ وہ جنید جمشید یا وینا ملک نہ بھی بنیں، اس بات کا اظہار وہ برملا کرتے ہیں کہ وہ گناہ کا کام کر رہے ہیں۔
سیاست تو خیر مولوی حضرات کے گھر کی لونڈی ہے۔ درجنوں یا شائد سینکڑوں مذہبی جماتیں ہیں۔ پارلیمنٹ سے لیکر یونیورسٹیوں تک، منڈی سے لے کر بینکوں تک، میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، ٹیلی وژن اسکرین سے لے کر فیس بُک وال تک…مولوی حضرات براجمان اور حاوی نظر آئیں گے۔
مسجد، مدرسہ، نکاح اور جنازہ یا محرم اور عید شب برات، حج کا مہینہ اور ماہ صیام تو خیر ہے ہی ان کا۔ اب تو نیا آرمی چیف بھی بنے تو اسے سب سے پہلے گھر میں نعت خوانی کرانی پڑتی ہے۔
ڈریئے اس وقت سے جب مارننگ شوز اور کوکنگ شوز بھی خادم رضوی اور طارق جمیل کیا کریں گے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔