طاہر کامران
ترجمہ: فاروق سلہریا
اس کالم کا پہلا حصہ پچھلے ہفتے پیش کیا گیا تھا۔ دوسرا اور آخری حصہ ذیل میں پیش خدمت ہے۔
انڈین قوم پرستی اور ہندو قوم پرستی ایک ہی وقت میں سامنے آنے والے دو دھارے تھے مگر ہندو قوم پرستی کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو انڈین قوم پرستی کے حصے میں آئی۔ جب انڈین بورژوازی کا حجم بڑا ہو گیا تو ہندو قوم پرستی پس منظر میں چلی گئی۔
انڈین قوم پرستی 1905ء میں تقسیم بنگال کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آئی۔ردِ عمل کے طور پر سامنے آنے والی اس قوم پرستی نے سودیشی تحریک کی شکل میں مزید طاقت پکڑی۔ سودیشی تحریک در حقیقت انڈین قوم پرستی کا معاشی اظہار تھا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ہندوستانی جغرافیہ، تاریخ اور معیشیت انڈین قوم پرستی کے نظریاتی ستون بن گئے۔
انڈین قوم پرستی کی بات کرتے ہوئے اکثر یہ ہوتا ہے کہ عالمی حالات و واقعات اور عالمی تحریکوں کے اس پر اثرات کا خاص ذکر نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ انڈین قوم پرستی محض خود رو تحریک نہ تھی۔عہد ِجدید کی کچھ شخصیات اور تحریکوں نے انڈین قوم پرستی سے جڑے لوگوں کے سیاسی شعورپر گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔
ان اثرات کے دو پہلو تھے: ایک عقلی،دوسرا جذباتی۔ ایڈمنڈ برک اور جان سٹیورٹ مِل نے عقلی طور پر متاثر کیا جبکہ ولیم ایورٹ گلیڈ سٹون (1809-1897)اور ابراہم لنکن (1809-1865)کی لبرلزم نے اس عقلی پہلو کو تشکیل دیا۔ جذباتی لحاظ سے ہندوستان کے اہلِ علم و دانش روسو اور مزینی سے متاثر ہوئے۔ سیاسی عمل کے لئے انقلاب امریکہ، آئرش قوم پرستوں اور اطالوی رہنما گیری بالدی کی جدوجہد سے سبق سیکھا گیا۔
جب تقسیم ِبنگال ہوئی اُن دنوں 1905 ء کے انقلابِ روس،ینگ ٹرکس اور 1911ء کے انقلابِ چین کا بھی چرچا تھا۔ ان تمام واقعات نے قوم پرستوں کو متاثر کیا کیونکہ ان کے پیش نظر جو آدرش تھے انہیں مذہب کے پنجرے تک محدود نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ مغربی تعلیم کا بھی یہ نتیجہ نکلا کہ شہری بورژوازی نے دنیا بھر کے واقعات سے سبق سیکھا اور انیٹی کلونیل سیاست پر مذہب کا اثر کم ہونے لگا۔
مندرجہ بالا تمہید کے باوجود یہ بات یاد رہے کہ ہندوستان میں قوم پرستی کی ترویج کا جائزہ لیتے ہوئے مذہب کی اہمیت کو پیش نظر بہر حال رہنا چاہئے۔مذہب ایک عنصر کے طور پر موجود رہا اور اپنے وجود کا اظہار کرتا رہا۔ کانگرس کی سیکولر قیادت اس عنصر کو خوش کرنے کے لئے مراعات دیتی رہی۔ 1925 ء میں جب آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا تو ہندو قوم پرستی نے ہندتوا کی شکل اختیار کر لی۔
آئیے اب ذرا کمپوزٹ قوم پرستی کا جائزہ لیتے ہیں۔ گوپال کرشنا گوکھلے کمپوزٹ قوم پرستی کی بات کرنے والے پہلے رہنما تھے۔ گاندھی اور جناح دونوں ہی گوکھلے سے بہت متاثر تھے کیونکہ گوکھلے اعتدال پسند نظریات رکھتے تھے جبکہ ان کی سیاسی بصیرت قابل ِستائش تھی۔
گوکھلے کی سیاست پر جلد ہی تلک کی انتہا پسندانہ سیاست غالب آ گئی۔سروارکر سمیت آر ایس ایس کے کئی رہنما بال گنگا دھر تلک سے متاثر تھے۔ 1915ء میں گاندھی کی جنوبی افریقہ سے واپسی نے انڈین قوم پرستی کو ایک نیا موڑ دیا۔لکھنو پیکٹ اس کا پہلا اور بہترین اظہار تھا۔
گاندھی ویسے تو پکے ہندو تھے مگر جنوبی افریقہ میں ہونے والے تجربات کے نتیجے میں وہ ایک ایسی قوم پرست سیاست کر پائے کہ جس میں ہر دھرم کے لوگ شامل ہو سکتے تھے۔ جنوبی افریقہ میں گاندھی نے مسلمان تاجروں اور مزدوروں کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ یہ کمپوزٹ تجربہ گاندھی کے شعور کا حصہ بن گیا۔
گاندھی کا ایک اور کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ہندو ازم کی ایک نئی شکل پیش کی۔ اس کا اظہار یہ تھا کہ وہ ہندو مت کو مندر سے نکال کر آشرم میں لے آئے۔آشرم میں کسی بھی دین دھرم کا انسان آ سکتا تھا۔ ذات پات، ستیہ گرہ اور آہمسا بارے ان کے خیالات ہر کسی کے لئے پر کشش تھے۔ان کے نظریات کے ان ستونوں بارے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
گاندھی کی اس غیر فرقہ وارانہ سیاست کے باوجود فرقہ وارانہ سوچ رکھنے والے لالہ لاجپت رائے اور مدن موہن مالویہ ایسے رہنما کانگرس میں بھی تھے اور ہندو مہا سبھا میں بھی۔ کانگرس نہ تو ان رہنماوں پر اثر انداز ہو سکتی تھی نہ ہی ان سے جان چھڑا سکتی تھی۔ انڈین قوم پرستی نے ہندو قوم پرستی کو اپنے اندر سمو لیا اور ہندو قوم پرستی انڈین قوم پرستی کے بطن میں پلتی رہی۔
1920 ء کی دہائی میں کانگرس کے تضادات بہت نمایاں تھے۔علمائے دیوبند اور ہندو قوم پرستوں کے علاوہ سوشلسٹ بھی کانگر میں متحرک تھے جو1917 ء کے بالشویک انقلاب کے بعد جا بجا نظر آنے لگے تھے۔ان سب میں اگر کوئی بات مشترک تھی تو وہ تھی برطانوی راج کی مخالفت۔ یہی وجہ ہے کہ جب آزادی ملی تو کئی طرح کے مسائل کا سامنا تھا اورکانگرس کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس بارے بات کالم کے آخر میں کریں گے۔ فی الحال ابوالکلام آزاد کا تذکرہ کرتے ہیں۔
مولاناآزاد نے مذہبی تعلیم حاصل کی مگر وہ جدید دنیا کے مسائل سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ خوش قسمتی سے وہ نہ تو تقلید کے قائل تھے نہ تکفیر کے۔ان کی مذہبی و سیاسی سوچ فرقہ واریت سے بالاتر تھی۔ انہوں نے قرآن کی ترقی پسندانہ تفسیر پیش کی۔ مسلمانوں کے ایک قابلِ احترام رہنما کے طور پر جب آزاد نے کانگرس کی سیاست میں حصہ لیاتو کانگرس کا ایک ایسی تنظیم کے طور پر تشخص مضبوط ہوا جو سب کی نمائندہ تھی ورنہ تو کانگرس ایک ہندو تنظیم تھی۔
مولانا آزاد برطانوی راج کے سخت خلاف تھے اور اس مسلم قوم پرستی کے حامی نہیں تھے جس کے نتیجے میں پاکستان نے جنم لیا۔ ان کا شمار چند ایسے ہندوستانی رہنماوں میں ہوتا ہے جن کو پاکستان کے علمی حلقے بھی احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں مخاصمت نہیں پائی جاتی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مولانا آزاد نے بنیادی اسلامی تعلیمات کی ترقی پسندانہ تفسیر پیش کی۔
ہندوستان میں سیکولر جمہوریت کی آخری اہم علامت پنڈت نہرو تھے۔ سوشلسٹ نظریات رکھنے والے نہرو کا مطالعہ انتہائی وسیع تھا۔ نہرو جدیدیت کے قائل تھے۔ وہ جمال عبدل ناصر،سائیکارنو اور نکرومہ کے ہم عصر تھے۔ یہ سب رہنما سرد جنگ کے آغاز پر ایک ہی جیسے نصب العین کی جستجوکر رہے تھے۔
نہرو ایک شاندار لکھاری تھے۔ایک کرشماتی رہنما تھے۔ آزادی کے بعد بھارت کی بنیاد نہرو کے وِژن پر رکھی گئی۔اپنی کتاب ’تلاش ِ ہند‘ میں انہوں نے تنوع میں اتحاد کا جو نظریہ پیش کیا اسے نو آبادیاتی دنیا میں خاصی پزیرائی ملی۔
تنوع میں اتحاد والی یہ سوشل ڈیموکریٹک سوچ اِس وقت بھارت میں نشانے پر ہے۔ کانگرس میں نہرو کے وارث قوم پرستی کو جدید حالات کے مطابق نہیں ڈھال سکے۔جب سویت روس کا انہدام ہوا تو انڈیا میں بھی انڈین قوم پرستی کی جگہ ہندتوا نے لے لی۔
اب حالات یہ ہیں کہ ہندو راشٹر بنانے والی سوچ آگے آ گئی ہے اور سیکولر نظریہ غیر مقبول ہو چکا ہے۔پاکستانی لبرل بھی اس صورتِ حال سے ناخوش ہیں کیونکہ کم از کم وہ پہلے اس بات پر رشک تو کر سکتے تھے کہ انڈیا میں جمہوری طریقے سے سیاسی نظام چلایا جا رہا ہے۔پوسٹ کلونیل دور میں سیکولر جمہوریت کی واحد مثال بھی اس وقت خطرے سے دو چار ہے۔ بد قسمتی سے اس کا مطلب یہ ہے کہ لبرل نظرئے کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے