فاروق سلہریا
کچھ دنوں سے فیس بک اور ٹوئٹر، اسی طرح بعض ٹاک شوز میں ایک جملہ تکرار کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے: ’اب تو عربوں نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لئے ہیں، تو پاکستان کیوں نہ کرے‘؟
اول، یہ بیانیہ سراسر غلط ہے۔ عربوں نے نہیں عرب آمروں نے عربوں کی مرضی کے خلاف اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے ہیں۔ یہ عرب سلطان اپنے ملکوں کے نمائندے نہیں۔ بالخصوص خلیج میں تو یہ سامراج کے مسلط کردہ مطلق العنان حکمران ہیں۔ یہ ڈیڑھ درجن عرب ممالک میں رہنے والے کروڑوں عوام کے نمائندہ نہیں۔
دوم، اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے سوال پرکہیں کوئی ریفرنڈم نہیں ہوا۔ یہ کوئی جمہوری فیصلہ نہیں۔ یہ کہنا کہ عربوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لئے دراصل عرب قوم کے ساتھ مذاق ہے۔
پی ٹی آئی حکومت اور ملا حضرات کی منافقت’افغان جہاد‘ کے دوران حبیب جالب سیاسی مولویوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے جو سامراجی گماشتہ بن کر پاکستانی نوجوانوں کو امریکی توپوں کا ایندھن تو بنوا رہے تھے مگر فلسطین کے لئے جدوجہد نہیں کرتے تھے۔
وقت تھوڑا بدلا۔ امریکہ نے سیاسی مولویوں اور ان کے مقامی آقاؤں کے ڈالر بند کئے تو اسرائیل کو بھی زور زور سے بد دعائیں دی جانے لگیں۔ پچھلے ہفتے وقت مزید بدلا۔ عرب امارات نے اسرائیل سے تعلقات قائم کر لئے۔ مطلب اب سعودی عرب بھی اس راستے پر گامزن ہے۔
اب ایک ہفتہ گزر گیا ہے نہ تو کسی مسجد، مدرسے یا جماعت اسلامی قسم کی کسی مذہبی جماعت نے سعودی عرب سے آئے ہوئے چندے واپس کئے ہیں، نہ ہی عرب امارات کے سلطان کے خلاف فتوے جاری ہوئے ہیں، نہ ہی کہیں مظاہرے ہو رہے ہیں۔
رہی بات امہ کے ممکنہ قائد عمران خان کی ریاست مدینہ والی حکومت کی تو ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور عرب امارات کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہونے سے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ گویا اگر وزارت خارجہ نہ بتاتی تو کسی کو پتہ ہی نہ چلتا کہ اس پیش رفت کے دور رس اثرات ہوں گے۔ اس قدر بزدلانہ بیان کسی باجگزار ریاست کی نام نہاد حکومت ہی دے سکتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان اپنی ائر فورس عرب اسرائیل جنگ کے لئے روانہ کر دیتا تھا، اب یہ عالم ہے کہ امہ کے ممکنہ قائد سے مذمتی بیان جاری نہیں ہو پا رہا۔ لوگوں کو تجزئیے سنائے جا رہے ہیں کہ اس پیش رفت کے دور رس اثرات ہوں گے۔ یہ محکمہ خارجہ ہے یا کوئی تھنک ٹینک جو ہمیں تجزئے سنا رہا ہے؟
کیا پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے چاہئیں؟
ہمارا واضح موقف ہے: ہرگز نہیں کیونکہ:
۱۔ پاکستانی عوام کو عرب عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے نہ کہ ایسے ظالم اور غیر منتخب عرب حکمرانوں کے ساتھ جن کے بارے ٹرمپ سر عام یہ کہہ چکا ہے کہ اگر امریکہ ان کی سرپرستی چھوڑ دے تو یہ ایک ہفتہ اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔
۲۔ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا ایک اصولی فیصلہ ہے۔ جب تک فلسطینیوں کو حق خود ارادیت نہیں ملتا، جب تک اسرائیل ایک صیہونی کلونیل پراجیکٹ کے طور پرموجود ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنا انٹرنیشنل ازم کے اصولوں کی نفی ہے۔ محنت کش تحریک نے یہ سبق بار بار سیکھا ہے کہ ایک جگہ محنت کشوں کی فتح دنیا بھر کے محنت کشوں کی فتح ثابت ہوتی ہے اور ایک جگہ ان کی شکست دنیا بھر میں ان کی شکست بن جاتی ہے (یہ بات مذہبی جنونی، فسطائی اور دیگر عوام دشمن قوتوں کے لئے بھی اتنی ہی درست ہے)۔ پھر یہ کہ یہ اسرائیل آخری کلونیل پراجیکٹ ہے۔ اس کا خاتمہ ہونا چاہئے: دو ریاستی حل یا ایک ہی ریاست میں برابری کی بنیاد پر عرب اور یہودی عوام ایک ساتھ رہیں، یہ الگ بحث ہے جس کا فیصلہ وہاں کے لوگ کریں…اہم بات یہ ہے کہ کلونیل ازم کا خاتمہ ہونا چاہئے ورنہ وہ جو مارکس نے کہا تھا ’پرانا کچرا‘ واپس آ سکتا ہے۔
۳۔ پاکستان ایک نہیں ہے۔ اس میں ایک حکمران طبقہ ہے جس کے مفاد سامراج، عرب آمریتوں اور اسرائیل کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان حکمرانوں کو اقامے چاہئیں۔ ان کے محل دبئی میں ہیں۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں نوکریاں کرنی ہیں۔ ایک پاکستان ہے یہاں کے محنت کشوں کا۔ اگر سامراج اور خلیجی آمریتوں کی ستر سالہ گماشتگی سے پاکستانی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ملا تو سامراج کی اسرائیلی چوکی سے بھی عام آدمی کو کوئی فائدہ ملنے والا نہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔