علی مدیح ہاشمی
ترجمہ: ایف ایس
فیض احمد فیض پر یہ الزام کہ انہوں نے اپنی شاعری کو محنت کشوں کی آواز بنا کر اسے کمزور کردیا، نیا نہیں ہے۔ دراصل یہ الزام طویل عرصے سے رائج اس نظرئیے کا عکاس ہے جسے بعض حلقوں میں بہت فوقیت دی جاتی ہے کہ آرٹ (اور اسے ہونا بھی چاہیے) ’مہذب‘ لوگوں کی میراث ہے (دولت مندوں کی خوش طبعی کی لئے)۔
’کھردرے عوام‘ کو ’فنون لطیفہ‘ میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے نہ ہی اس کی سمجھ۔ فن برائے فن ہونا چاہیے اور فنکار کو تخلیقی عمل کے دوران معاشرتی یا بیرونی نکتہ نظر کوخاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ اس نظریے کی دوسروں کی طرح جیمس جوائس، پروست، گیرٹروڈ اسٹین، ڈی ایچ لارنس اور ڈبلیو بی یٹس نے بھی حوصلہ افزائی کی۔ جمالیات کے پیروکار جن میں آسکر وائلڈ (1854-1900ء) شامل ہیں، یہ استدلال رکھتے تھے کہ آرٹ کو مذہبی، سیاسی یا معاشی مقاصد کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس نظریے کے خلاف بغاوت تھی کہ آرٹ ’اعلیٰ ترین سچائیوں‘ (افلاطون کے مطابق) یا ’عقلی علوم‘ (ہیگل کے مطابق) کے برعکس علم کے دوسرے شعبوں میں ہمیشہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ سرکشی ’آرٹ دشمنوں‘ کے خلاف بھی ایک جدوجہد تھی جو آرٹ، حسن، فکری مواد اور روحانی اقدار کو حقیر سمجھتے تھے۔ یہ ان لوگوں کے خلاف بھی بغاوت تھی جو فن کو محض مادی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح ’فن برائے فن‘ کا نعرہ ان دونوں کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا جو فن کو بدنام کرتے اور اسے علم کے دوسرے شعبوں سے کمتر مقام دیتے تھے اور جو اسے منافع کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
یہیں سے ہم فن شاعری خاص طور پر فیض کی شاعری کی طرف آتے ہیں جس میں ’احتجاج‘ اور’فعالیت پسندی‘ کچھ لوگوں کو بہت پریشان کرتی ہے۔ اس پریشانی کی خاص وجہ فیض کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے ساتھ وابستگی ہے، جو 1936ء میں قائم ہوئی تھی۔
شروعات
یہ سمجھنا مشکل لگتا ہے کہ’انگارے‘ کے عنوان سے مختصر کہانیوں کا مجموعہ اس طرح کی ہلچل پیدا کر سکتا ہے اور اس سے بھی زیادہ مشکل یہ کہ’انگارے‘ ہی برصغیر میں بیسویں صدی کی سب سے اہم سیاسی و ادبی تحریک کا نکتہ آغاز بنی۔’انگارے‘ 1932ء میں جب پہلی بار لکھنؤ سے شائع ہوئی تو اس نے ہلچل مچا دی۔ ایک شور برپا ہو گیا اور ہندوستان کے سرکردہ مسلم علما اور قدامت پسند انجمنوں کے دباؤ میں برطانوی حکام کی جانب سے دس مختصر کہانیوں کے اس مجموعے پر پابندی عائد کرنے سے قبل صرف چند سو کاپیاں ہی چھپ سکیں۔
کم و بیش تمام طبع شدہ کاپیاں ضائع کردی گئیں۔ مجموعے کے چار مسلمان مصنفین مذہبی راسخ العقیدگی، روایتی معاشرتی و جنسی رسوم، خواتین اور محروم طبقات سے متعلق مروجہ رویوں کو ہدف تنقید بنانے پر شدید حملوں کا نشانہ بنے۔ چاروں مصنفین سید سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں اور محمود ظفر کا تعلق اعلیٰ متوسط گھرانوں سے تھا۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں سے ایک، سجاد ظہیر، اودھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر سید وزیر حسن کے بیٹے تھے۔ احمد علی ایک سرکاری ملازم کے بیٹے، علی گڑھ اور لکھنو یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے انگلش دونوں میں فرسٹ کلاس آنرز کے ساتھ فارغ التحصیل تھے۔ رشید جہاں ماہر امراض نسواں تھیں۔ ان کے والد نے لڑکیوں کے لئے ایک اسکول قائم کیا تھا جو بعد میں سرسید احمد خان کے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے وابستہ ہو گیا۔ محمود ظفر کے والد صاحبزادہ سید الظفر خان رام پور حکمران خاندان کے ممتاز رکن، ڈاکٹر اور لکھنؤ یونیورسٹی میڈیکل کالج کے سربراہ تھے۔
چاروں نوجوان دوست ’انگارے‘ طرز کا افسانوی مجموعہ شائع کریں گے، یہ ایک غیرمعمولی واقعہ تھا۔ تاہم یہ جنون اجنبی بن گیا۔ مجموعے میں شامل کہانیاں اپنا تاثر نہ چھوڑ سکیں اور بھلا دی گئیں کیوں کہ ان میں بہت کم ادبی یا فنکارانہ صلاحیت موجود تھی۔ ایک نقاد نے لکھا کہ یہ کتاب ابتدائی دور کے واعظانہ انداز کے مسائل سے دوچار تھی۔ اس میں شامل کہانیاں غیر تسلی بخش، غصے کا موہوم سا اظہار مگر اہم سیاسی تنقید تصور کی گئیں (احمد علی۔ ”سردیوں کی بارش کی ایک رات“ اردو علوم کا سالنامہ)۔ خود سجاد ظہیر نے اپنی سوانح عمری’روشنائی‘ میں لکھا: ”اس مجموعہ کی بیشتر کہانیوں میں گہرائی اور استحکام کا فقدان تھا۔ بعض جگہوں پر جہاں توجہ جنسی امور پر مرکوز تھی وہاں ڈی ایچ لارنس اور جیمز جوائس کا اثر واضح تھا“۔
یہ کہانیاں بلاشبہ واضح طور پر معاشرے کو چونکانے اور اشتعال دلانے کے لئے تھیں۔ مہذب معاشرے میں ’غیر مہذب‘سمجھے جانے والے معاملات پر لکھنے کے باعث منٹو، عصمت چغتائی اور میرا جی کی مذمت سے قبل یہ چار نوجوان دوست تھے اور ان کے ’انگارے‘۔ مسلمان گھرانوں میں پلنے بڑھنے والے یہ مصنفین اس امر کا تعین نہ کر سکے کہ ان کا مجموعہ مسلم رائے عامہ کو مشتعل کر دے گا۔
احمد علی کے افسانے ’سردیوں کی بارش کی ایک رات‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں: ”پیارے خدا، رحم کریں۔ خدا تو غریبوں کے ساتھ ہوتا ہے، ان کی مدد کرتا، ان کے درد بھری آواز کو سنتا ہے۔ کیا میں غریب نہیں ہوں؟ خدا مجھے کیوں نہیں سنتا؟…وہ ہماری پرواہ کیوں نہیں کرتا؟ اس نے ہمیں کیوں بنایا؟ غموں سے دوچار رہنے اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے۔ یہ کیسا انصاف ہے! وہ دولت مند کیوں ہیں اور ہم غریب کیوں؟ اس سب کا بعد کی زندگی میں بدلہ دیا جائے گا۔ مولوی ہمیشہ یہی کہتے ہیں۔ کس کے بعد کی زندگی؟ بعد والوں کی ایسی کی تیسی۔ میری پریشانیاں اور ضروریات یہاں اور اب ہیں“۔
انگارے میں سب سے زیادہ متنازع افسانہ شاید سجاد ظہیر کا ’جنت کی بشارت‘ تھا جس میں ایک مبلغ (جس کی بیوی اس سے بیس سال چھوٹی تھی) جنت میں حوروں کے ساتھ حرام لذتوں سے متعلق خواب دیکھتا ہے۔ جیسا کہ کارلو کوپولا نے کہا کہ ’انگارے‘ کی اہمیت اس کے ادبی معیار میں نہیں ہے، جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا، وہ نہایت پست تھا، مذہب اور سماج کے خلاف اس کا واعظانہ انداز بھی ناپختہ تھا، دراصل ’انگارے‘ کی اہمیت ان نوجوانوں کا اجتماع تھا جنہوں نے برصغیر پاک و ہند میں ’انجمن ترقی پسند مصنفین‘ کی بنیاد رکھی، اردو ادب کو انقلاب سے روشناس کرایا اور بیسویں صدی کے بیشتر حصے کو متاثر کیا۔
امرتسر میں سجاد ظہیر کی فیض سے پہلی ملاقات ہوئی جہاں وہ ایم اے او کالج میں لیکچرر اور صاحبزادہ محمود مظفر وائس پرنسپل تھے۔ کالج دور سے ہی فیض انجمن ترقی پسند مصنفین کے متحرک کردار رہے، انجمن سے وابستگی نے ان کے نظریات کی مزید آبیاری کی اور ایک نظریاتی کارکن کی حیثیت سے انہوں نے بہت کام کیا۔
’آل انڈیا پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن‘ اپریل 1936ء میں لکھنؤ میں ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس میں تشکیل دی گئی۔ اس کے بعد جلد ہی ادب، موسیقی، تھیٹر اور سنیما تک ا س کے اثرات پہنچ گئے۔ فیض کے سوانح نگار اور معروف روسی اسکالر ڈاکٹر لڈمیلہ واسییلیفا کے مطابق انجمن ترقی پسند مصنفین تین دہائیوں تک ایک بااثر سماجی اور ادبی تحریک رہی، جو اپنی اہمیت کے اعتبار سے سرسید احمد خان کی علی گڑھ اصلاحی تحریک کے ہم پلہ ہے۔
ترقی پسند مصنفین اور بایاں بازو
وہ لوگ جنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ آل انڈیا پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن ہندوستان میں اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے کمیونسٹ پارٹی کے ایک ’محاذ‘ کے طور پر تشکیل دی گئی تھی وہ حقائق سے لاعلم تھے یا غالباً تنظیم کو بدنام کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے جیسا کہ برطانوی راج اس کی تشکیل کے بعد یہ کوشش کر چکا تھا۔ علامہ اقبال، بلبلِ ہند سروجنی نائیڈو، منشی پریم چند (جو اردو ہندی میں ’حقیقت پسند ادب‘ کے بانی سمجھے جاتے ہیں)، جوش ملیح آبادی (محمد اقبال کے بعد ہندوستان کے مشہور شاعر) اور ممتاز ماہر لسانیات مولوی عبد الحق سب نے سجاد ظہیر کی تجویز کی بھرپور حمایت کی۔ علامہ اقبال اور ’بلبل ِہند‘ سروجنی نائیڈو ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے سجاد ظہیر کے ہاتھوں تقسیم ہونے والے انجمن ترقی پسند مصنفین کے منشور پر دستخط کئے تھے۔ انجمن کی پہلی کانفرنس کی صدارت منشی پریم چند نے کی، دوسری کانفرنس میں مرکزی خطاب رابندر ناتھ ٹیگور کا تھا۔
یہ خیال کہ فیض کی انجمن سے نظریاتی وابستگی کسی ’دباؤ‘ کے تحت تھی، مضحکہ خیز ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ فیض کے پاس بہترین انفرادی مواقع بھی موجود تھے (ان کی خاموش طبع کے باوجود) جیسا کہ انھوں نے ہندوستان کے ساتھ 1965ء کی جنگ کے دوران پاکستانی حکومت کی حمایت میں حب الوطنی پر مبنی گانے لکھنے سے انکار کر دیا تھا۔
فیض انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستگی سے متعلق خود بتاتے ہیں: ”اس دوران (امرتسر میں) میں نے اپنے دوستوں صاحبزادہ محمود مظفر اور ان کی اہلیہ رشید جہاں سے ملاقات کی۔ پھر ترقی پسند مصنفین کی ایسوسی ایشن کی تشکیل ہوئی، کارکنوں کی تحریکیں شروع ہوگئیں اور ایسا محسوس ہوا جیسے تجربے کے نئے باغات (دبستان) کھل گئے ہیں۔ اس دوران، میں نے سب سے پہلے اسباق تو یہ سیکھے کہ کائنات کی وسعت کے سامنے اپنی ذات پر ہی توجہ مرکوز رکھنا بہت ہی معمولی چیز ہے اور ان وسعتوں کو اپنی زندگی سے خارج کرنے پر توجہ دینا بے سود اور بیکار ہے“ (نسخہ ہائے وفا)۔
فیض اس نقطہ نظر سے کبھی نہیں ہٹے۔ تاہم ان کا شاعرانہ اظہار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل ضرور ہوا، جو ایک بار پھر ان کے اندرونی تجربات پر بیرونی دنیا کے اثر و رسوخ کا عکاس تھا۔ ان کا دل موہ لینے والا قطعہ ملاحظہ کریں جب وہ 1982ء میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد لاہور کے میو اسپتال میں زیرعلاج رہے۔ انہوں نے اسے ’نیند کی رات کا تجربہ‘ قرار دیا:
اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب، نہ سورج، نہ اندھیرا، نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرہ
(ایک بے خواب رات کی واردات)
اپنی بعد کی نظموں میں اداسی واضح ہونے کے باوجود فیض اس بارے میں سخت گیر رہے کہ کسی فنکار کو سماجی سطح پر نظریاتی ہونا چاہیے۔ ”یہ میرا پختہ یقین ہے کہ شاعری کو اس مقصد (کسی خاص نظریہ کی تشہیر) کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور شاعری اس مقصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ بات یہ ہے کہ ہر ایک لفظ جو ہم اپنی روزمرہ زبان میں بولتے ہیں وہ کوئی خیال، کوئی سوچ، کوئی رائے دوسروں تک پہنچاتا ہے، جو انہیں کسی حد تک متاثر کرتا ہے اور اگر آپ کسی کے ذہن میں ایک منٹ بھی بدلاؤ لاتے ہیں تو آپ کسی حد تک دنیا کے نظام میں تبدیلی لے آئے۔ شاعری یہ کام بہت حد تک کر سکتی ہے، اس کے لیے شاعری میں نعرے لگانے، چلانے اور سیاسی بیانات دینے کی ضرورت نہیں ہے“ (گفتگو۔ فیض احمد فیض۔ شہرزاد پبلیکیشنز)۔
اے اہل قلم! تم کس کے ساتھ ہو؟
فیض کبھی بھی اپنے سماجی اور سیاسی نظریات پر معذرت خواہانہ رویہ نہیں رکھتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں ہر فنکار کو ایسا ہونا چاہئے۔ اپنے مضمون ”اے اہل قلم! تم کس کے ساتھ ہو؟“ میں انہوں نے معاشرے میں ایک مصنف کے کردار کو واضح کیا: ”لکھاری کو اپنے ملک اور عوام سے وابستہ ہونا چاہیے۔ ایک رہنما، فلسفی اور دوست کی حیثیت سے عوام کو جہالت، مافوق الفطرت، بلاجواز تعصبات کے اندھیروں سے نکال کر علم و معقولیت اور ظلم و ستم کے پرپیچ راستوں سے نکال کر آزادی کے راستوں کی طرف لے جانا چاہئے“ (فیض: ثقافت اور شناخت)۔
اور ان لوگوں کے لئے جو آرٹ کو دولت مندوں کے تفنن طبع یا زیادہ قیمت بٹورنے کی کوئی چیز سمجھتے ہیں، ان کیلئے فیض نے کہا کہ آرٹ نہ تو آقا ہے نہ ہی غلام بلکہ انسانیت کا سب سے شفیق رہنما ہے۔ فن یقیناً کسی فنکار کے ضمیر کی آواز ہے لیکن یہ انسانی تاریخ میں تمام لوگوں کی اجتماعی آواز بھی رہا ہے۔ اپنی سب سے روشن شکل میں آرٹ توہمات اور تعصبات کو ختم کر کے اعلیٰ ترین نظریات کو فروغ دیتا ہے۔ یہ تمام فنون اور تمام فنکاروں کا مقصد ہے لیکن خاص طور پر ان فنکاروں کا جو اپنے ساتھی انسانوں کو صدیوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے کوشاں ہیں۔
بشکریہ: دی فرائیڈے ٹائمز