نقطہ نظر

صدر میکروں سے سامراجی میڈیا تک، میراڈونا سے تعصب واضح تھا

فارو ق سلہریا

ٹیلی سور، دی نیشن (امریکہ) یا جیکوبن جیسے بائیں بازو کے عالمی میڈیا آوٹ لیٹس میں دیاگو میراڈونا کی وفات کی خبر پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نہ صرف ان کے جادوئی کھیل کی تعریف کی گئی بلکہ مرحوم کی ترقی پسندانہ سیاست کو بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اسی طرح دنیا بھر میں غالباً سوشلسٹ سیاسی کارکنوں نے اپنے فیس بک اور ٹوئٹر اکاونٹس پر میرا ڈونا کی تصاویر شیئر کیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ میرا ڈونا کی بازو پر چے گویرا کا ٹیٹو بنا ہوا ہے یا وہ فلسطینی صدر محمود عباس سے گلے مل رہے ہیں۔

اس کے برعکس سامراجی میڈیا چاہے وہ نیو یارک ٹائمز تھا یا خبر رساں ادارہ رائٹرز، میراڈونا بارے ہر کمنٹری میں قارئین کو بار بار یاد دلایا جا رہا تھا کہ میراڈونا نشہ کرتے تھے اور 1986ء کے ورلڈ کپ میچ میں انگلینڈ کے خلاف انہوں نے ہاتھ سے گول کیا تھا (گویا وہ ایک دھوکے باز تھے)۔

سامراجی میڈیا کی کوریج میں میراڈونا بارے ایک زہر آلود تعصب بالکل واضح تھا۔ کیا نشہ کرنا ایک ذاتی مسئلہ نہیں؟ نشہ ایک بیماری ہے۔ کیا نشہ کرنے والے سے ہمدردی کرنی چاہئے یا اس کے نشے کی بیماری کا اسکینڈل بنانا چاہئے؟ میراڈونا کی دفعہ سامراجی میڈیا کسی ہمدردی کا روادار ثابت نہیں ہوا۔

ارجنٹینا میں میراڈونا کی وفات پر میڈیا کوریج کیسی رہی؟ ان کے اپنے ہم وطن کیا سوچ اور کہہ رہے تھے؟ مغربی میڈیا کے اس تعصب کو وہ کیسے دیکھتے ہیں؟

ان سوالوں کے جوابات جاننے کے لئے میں نے ارجنٹینا کی سپورٹس جرنلسٹ میلیسا تراد مالمود سے انٹرویو کیا۔ ان کا کہنا ہے: فرانسیسی صدر نے اپنے تعزیتی پیغام میں جو کچھ کہا وہ مغربی میڈیا کی سوچ کا خلاصہ بیان کر دیتا ہے۔

میلیسا اپنے دیگر ہم وطنو کی طرح فٹ بال کی دیوانی ہیں۔ انہوں نے ایک ارجنٹائن اخبار کے لئے 2018ء فٹ بال ورلڈ کپ کی رپورٹنگ بھی کی۔ وہ خواتین اور ہم جنس پرست حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ بھی متحرک ہیں۔ ذیل میں ان سے انٹرویو کی تفصیلات پیش خدمت ہیں:

سامراجی میڈیا میں تو میراڈونا کے نشے کی ’عادت‘ اور ’ہینڈ آف گاڈ‘ گول کا تذکرہ رہا۔ ارجنٹینا کے میڈیا میں میراڈونا کی وفات کو کیسے کور کیا گیا؟

میلیسا: اگر ارجنٹینا کے میڈیا میں ہونے والی کوریج کو ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو وہ لفظ ہے: دکھ۔ ساری کوریج دکھ سے لبریز تھی۔ میراڈونا ایک اوتار تھے اور ہیں، انہیں خدا حافظ کہنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہاں میڈیا پر ان کے قریبی ساتھیوں کو انٹرویو کیا گیا۔ ان میں سے بہت سارے ٹیلی ویژن سکرین پر روتے ہوئے دکھائی دئیے۔ یہ اس لحاظ سے بھی دلچسپ تھا کہ مردوں سے توقع کی جاتی ہے کہ انہیں آنسو نہیں بہانے چاہئیں۔ میراڈونا کے پرانے ویڈیو چلائے گئے۔ انہیں کھیلتے ہوئے دیکھنا بہت اچھا لگا۔ آپ دیکھ سکتے تھے کہ ان کے پاؤں میں کیسا جادو تھا۔ میڈیا نے یہ بھی دکھایا کہ کس طرح مختلف فٹ بال کلب ان کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے۔ پورے ملک سے لوگ دارلحکومت بیونس آئرس پہنچے تاکہ میراڈونا کا آخری دیدار کر سکیں۔ میراڈونا کی ٹی شرٹ پہنے ہزاروں لوگ دارلحکومت بیونس آئرس کی سڑکوں پر دیکھے جا سکتے تھے۔ کئی لوگ باقاعدہ رو رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر البتہ لوگ مختلف اور طرح طرح کی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔

رائٹرز نے ایک سرخی لگائی جس میں میراڈونا کو ایک عیب دار ہیرو قرار دیا گیا۔ کیا ارجنٹینا اور لاطینی امریکہ میں بھی میراڈونا کو ایک عیب دار ہیرو سمجھا جاتا تھا؟

میلیسا: آپ کے سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ کس سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے۔ اگر آپ فٹ بال کے شائقین سے پوچھیں گے تو ان کے نزدیک تو میراڈونا اوتار کا درجہ رکھتے ہیں۔ میراڈونا کی وفات کے بعد البتہ کچھ فیمن اسٹ حلقوں نے اس بارے میں بحث کی کہ میراڈونا کا عورتوں سے سلوک ناقبل قبول تھا۔ بہت سوں نے یہ نقطہ اٹھایا کہ میراڈونا کو اوتار ماننے والے اگر عورتوں بارے ان کے سلوک کی بات نہیں کرتے تو یہ ایک تضاد ہو گا۔ میرا اپنا خیال ہے اور بہت سے دوسرے بھی اس سے متفق ہیں کہ ہمیں میراڈونا کی شخصیت کے دونوں پہلو سامنے رکھنے ہوں گے۔ ہمیں میراڈونا کی شخصیت کے منفی پہلوؤں سے صرف نظر نہیں کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے یہ سوال بھی پیدا ہوتے ہے کہ کیا ہمیں ایسے ہیروز ہی چاہئیں جن میں کوئی عیب نہ ہو اگر ایسا ہے تو پھر ہم آئندہ ایسے لوگوں کو ہیرو مت بنائیں جن میں ایسے عیب ہیں۔

سامراجی میڈیا نے جس تعصب کا مظاہرہ کیا اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، اس تعصب کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

میلیسا: میرے خیال سے سامراجی میڈیا نے زیادہ توجہ میراڈونا کے کھیل پر دی۔ اس بارے میں تو کوئی شک نہیں کہ میراڈونا ایک عظیم کھلاڑی تھے۔ ہاں مگر ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سے حلقے میراڈونا کی سیاست سے متفق نہیں۔ اکثر میڈیا نے میراڈونا کی سیاست پر بات سے یوں اجتناب کیا گویا میراڈونا کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو۔

فرانسیسی صدر امانوئیل میکروں کا تعزیتی بیان اس ضمن میں خاصا دلچسپ ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں میراڈونا کے کھیل کی کھل کر تعریف کی مگر آخر میں ایک جملہ لکھا جس میں میراڈونا کی فیدل کاسترو اور ہیوگو شاویز سے توقعات بارے کہا کہ ان توقعات کا ذائقہ انتہائی کڑوا تھا۔ فرانسیسی صدر نے اپنے تعزیتی پیغام میں جو کچھ کہا وہ مغربی میڈیا کی سوچ کا خلاصہ بیان کر دیتا ہے۔

میراڈونا ایک ایسا سپورٹس سٹار تھا جس نے کھیل، ترقی پسند سیاست اور سماجی تحریکوں کو جوڑ دیا تھا۔ ان کی سیاست ارجنٹینا اور لاطینی امریکہ کے لئے کیا اہمیت رکھتی ہے؟

میلیسا: اس حوالے سے میراڈونا کی شخصیت ہمیشہ متنازعہ رہی۔ بہت سے لوگ تھے جو ان کے فٹ بال کے تو دیوانے تھے مگر ان کی رائے کو اہم نہیں سمجھتے تھے۔ ایسے لوگ میراڈونا کے فٹ بال اور سیاست کو علیحدہ علیحدہ رکھتے۔ پھر ایسے بھی بہت سے لوگ تھے جو ان کی سیاست کو پسند کرتے تھے۔ وہ پیرون ازم سے قریب تھے جو ارجنٹینا میں ایک طاقتور سیاسی تحریک ہے۔ وہ موجودہ صدر البترو فرناندس اور سابقہ خاتون صدر کرستینا دی کرچنر کے بھی قریب تھے۔ لاطینی امریکہ ہی نہیں، وہ فلسطین کے بھی زبردست حامی تھے۔ وہ لاطینی امریکہ کے ترقی پسند رہنماؤں سے بھی قریب تھے۔ آپ کی کیوبا یا وینزویلا بارے جو بھی رائے ہو یہ بات طے ہے کہ میراڈونا نے ہمیشہ غریبوں اور کمزوروں یا محکوموں کا ساتھ دیا۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی جڑوں کو کبھی نہیں بھولا۔ وہ غریب خاندان اور کچی آبادی میں پلے بڑھے۔ اگر آپ عالمی سطح پر بھی دیکھیں تو نظر آئے گا کہ وہ ان کمزور ملکوں کے ساتھ ہیں جو سامراج سے ٹکر لے رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو دل کو چھو لیتا ہے۔

ارجنٹینا میں ان کی بے پناہ مقبولیت کی کیا وجہ ہے۔ محض ان کا فٹ بال یا فٹ بال اور سیاست کا امتزاج؟

میلیسا: ارجنٹینا میں محض فٹ بال کی بات نہیں کی جا سکتی۔ فٹ بال کتنا اہم ہے، یہ بیان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ فٹ بال ہماری روایات، اقدار اور روزمرہ معاملات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر تھوڑی شاعرانہ انداز میں بات کی جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ارجنٹینا جس کی عالمی سیاست میں کوئی بڑی حیثیت نہیں وہ فٹ بال کے میدان میں عالمی ناہمواریوں کو برابر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میراڈونا اس کی بہترین مثال ہیں۔ 1986ء کے ورلڈ کپ میں انہوں نے برطانیہ کے خلاف جو گول کیا وہ میرے ملک کے لئے تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم فاکلینڈ تو برطانیہ سے واپس نہ لے سکے لیکن ہم نے انہیں فٹ بال کے میدان میں شکست ضرور دی۔ یوں ہم نے بدلہ لے لیا۔ روحانی حد تک ہی سہی۔

میراڈونا جب فٹ بال کھیل رہے تھے تو میرے ملک کے لئے وہ بہت مشکل وقت تھا۔ بہت سے لوگ جنہوں نے انہیں کھیلتے دیکھا کہتے ہیں کہ میراڈونا نے پورے ملک کو حالت غم سے باہر نکالا۔ ان کا جنازہ اسی بات کی غمازی کر رہا تھا۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔