خبریں/تبصرے

لبنان: طلبہ یونینز کے انتخابات میں سیکولر تنظیموں کی ملک گیر کامیابی

حارث قدیر

لبنان کی جامعات کے انتخابات میں آزاد سیکولر طلبہ بڑی فتوحات حاصل کر رہے ہیں۔ لبنانی جامعات کے انتخابات کی یہ لہر قومی پارلیمانی انتخابات کی سمتوں کا تعین بھی کر سکتی ہے۔ ملکی اقتدار کی تبدیلی کیلئے بھرپور تحریک کے عہد میں جامعات کے انتخابات کو خصوصی توجہ حاصل ہے۔

لبنانی امریکی یونیورسٹی (ایل اے یو)، امریکن یونیورسٹی بیروت (اے یو بی)، یونیورسٹی سینٹ جوزف (یو ایس جے) کی کونسلوں میں میں سیکولر شناخت رکھنے والے آزاد امیدوارطلبہ نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ ان طلبہ نے سیکولرزم کو ہی سیاسی شناخت کے طور پر الیکشن مہم کا حصہ بنایا۔

ان انتخابات میں ملکی اسٹیبلشمنٹ کی بہت ساری طلبہ تنظیمیں تعلیمی اداروں سے ختم ہو چکی ہیں۔ لبنان کی سب سے قدیم درسگاہ یو ایس جے کے کونسلوں کی کل 101 نشستوں میں سے 39 نشستوں پر سیکولر طلبہ کے مد مقابل کوئی امیدوار کھڑا نہیں ہوا، سیکولر طلبہ نے بارہ فیکلٹیوں کی 85 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے کونسل کی صدارت حاصل کی۔

اے یو بی میں کئی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹیوں کے طلبہ ونگز نے شکست کو دیکھتے ہوئے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیاتھا، یہاں بھی سیکولر تنظیموں کے امیدواران نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔

لبنان میں بڑے مذہبی گروہوں کے مابین اقتدار میں شراکت کا معاہدہ موجود ہے جس کے تحت ہی تمام سیاسی سرگرمیاں منعقد ہوتی ہیں۔ اس فرقہ وارانہ نظام کے اندر لبنان کا صدر ہمیشہ ایک میرونی عیسائی ہوتا ہے، وزیراعظم سنی مسلمان اور پارلیمنٹ کا سپیکر شیعہ مسلمان ہوتا ہے۔ پارلیمان کے 128 ممبران بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہی منتخب ہوتے ہیں۔ شادی، طلاق، بچوں کی نگرانی اور وراثت سمیت تمام ذاتی حیثیت کے قوانین بھی فرد کی مذہبی وابستگی کی بنیاد پر ہی استعمال ہوتے ہیں۔

جامعات کی کونسلوں کے انتخابات میں حصہ لینے والے سیکولر طلبہ کا خیال ہے کہ فرقہ وارانہ نظام لبنان کو درپیش موجودہ سیاسی اور معاشی تباہی کی بنیادی جڑ ہے۔ وہ سیکولرازم کے ذریعے مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کو ہی بہتری کی جانب قدم کے طورپر دیکھتے ہیں۔ ان طلبہ نے نظام کے خلاف مزاحمت کا نعرہ اپنایا اور ملک کی معاشی ابتری اور چار اگست کو بیروت بندرگاہ پر دھماکے کے نتیجے میں تباہی کا موجب فرقہ وارانہ نظام حکومت کو قرار دیا۔

لبنان میں یونیورسٹی انتخابات تاریخی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ 2005ء کی مشہور تحریک ’انتفادہئ آزادی‘ نے سابق وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کے بعد لبنان سے شامی فوج کی واپسی میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ تحریک کی حامی حزب اختلاف نے قومی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور شام کی حامی قوتوں کو شکست دی تھی جو 1990ء میں جنگ کے خاتمے کے بعد سے مقامی سیاست پر حاوی تھیں۔

جامعات میں سیکولر طلبہ کی فتوحات لبنان کے پارلیمانی مستقبل کے حوالے سے اہمیت کی حامل ضرور ہیں اور سیکولر طلبہ بھی پر امید ہیں کہ آنے والے سال مختلف ہونگے لیکن لبنان کے معاشی اور سیاسی بحران کے جہاں فوری ذمہ دار فرقہ وارانہ تقسیم کی بنیادیں رکھنے والے مقامی حکمران طبقات ہیں وہیں سامراجی مداخلت اور سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کیلئے حکمرانوں کا کردار بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ گو کہ فرقہ وارانہ تقسیم پر مبنی قوانین اور شراکت اقتدار کے خاتمے اور مذہب کی ریاست سے علیحدگی سے کچھ سماجی مسائل حل ہونگے اور ماضی کے حالات میں کچھ سدھار پیدا ہو سکتا ہے لیکن سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے لبنان کے سیاسی و معاشی بحران سمیت سامراجی مداخلت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ نوجوانوں کو سیکولرازم سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس نظام کی تبدیلی کا نعرہ اور نظریہ اپنانا ہو گا۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔