پاکستان

شاک ڈاکٹرئن اور 16 دسمبر

فاروق سلہریا

کینیڈا سے تعلق رکھنے والی معروف مصنف اور سیاسی کارکن نے اپنی معروف کتاب ’شاک ڈاکٹرئن‘ (Shock Doctrine) میں دعویٰ کیا ہے کہ بعض ممالک میں شاک تھراپی کے ذریعے نیو لبرل پالیسیاں لاگو کی گئیں۔

شاک تھراپی سے ان کی مراد یہ تھی کہ کسی قومی سانحے، المئے یا بحران کے دوران (وہ کوئی موسمی آفت بھی ہو سکتی ہے اور چلی میں ہونے والی خونی فوجی بغاوت بھی) جب پوری قوم سکتے کی حالت میں تھی تو اس دوران عوام دشمن نیو لبرل پالیسیاں لاگو کر دی گئیں۔ ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ بحران کے دوران لوگ سکتے کا شکار ہوتے ہیں، بعض اوقات گھر سے بھی بے گھر ہوئے ہوتے ہیں (جیسا کہ فوجی آپریشنز، سیلاب یا زلزلے کے بعد ہوتا ہے)۔ ایسے میں وہ مزاحمت کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس شاک کا فائدہ اٹھا کر معیشت کی نیو لبرل تھراپی کر دی جاتی ہے۔

اس کی ایک ہلکی پھلکی مگر تازہ مثال تو پاکستان کی موجودہ حکومت ہے جس نے کرونا بحران کا فائدہ اٹھا کر مہنگائی اور قرضوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی بجائے تیزی سے نج کاری کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔

ہمارے ہاں اس شاک ڈاکٹرئن کی ایک مثال 16 دسمبر کو بھی دیکھنے کو ملتی ہے البتہ یہاں شاک ڈاکٹرئن کا نشانہ معیشت کی بجائے تاریخ ہوتی ہے۔

قصہ یوں ہے کہ مشرف دور میں ٹیلی ویژن کی نج کاری اور میڈیا کے ’آزاد‘ ہونے سے قبل، 16 دسمبر کے دن ملک بھر کے قومی اخبارات ’سقوطِ ڈھاکہ‘ پر خصوصی ایڈیشن شائع کیا کرتے تھے۔

بھلے ان خصوصی ایڈیشنز میں پاکستان ٹوٹنے کی ذمہ داری بھٹو پر ڈالی جاتی، تھوڑا بہت جنرل یحیٰ خان کی مے نوشی اور عیاشی کے قصے دہرائے جاتے یا’مکتی باہنی کے ظلم و ستم‘کا ذکر آتا لیکن مندرجہ ذیل تصویر بھی شائع ہوتی۔

کبھی کبھار، بین السطور اصل وجوہات کی بات بھی ہو جاتی۔ ’آزاد‘ میڈیا نے 16 دسمبر والے دن ’سقوط ڈھاکہ‘ کو شہ سرخیوں سے کیا، تاریخ سے ہی خارج کر دیا۔ برا ہو سوشل میڈیا کا جو تجارتی میڈیا کا پردہ چاک کردیتا۔ پھر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ رونما ہو گیا۔ عین 16 دسمبر کے دن۔

اس واقعے سے پہلے، دن رات مین سٹریم پاکستانی میڈیا میں طالبان کی مدح سرائی کی جاتی۔ وہ تجارتی میڈیا کے ہیرو تھے۔ حامد میر جیسے معروف اینکر پرسن طالبان کا حلیہ بنا کر لائیو پروگرام کرتے جس میں بتایا جاتا کہ’شہید‘ہونے والے طالبان کی قبروں سے خوشبو کے جھونکے آ رہے ہیں۔

جب سوات میں چاند بی بی کو کوڑے مارے گئے اور اس پر لوگوں کا شدید رد عمل سامنے آیاّیہ پہلا موقع تھا کہ طالبان کے حامی تھورا مشکل میں پڑے تو اوریا مقبول جان اور انصار عباسی جیسے ’صحافیوں ‘ نے کہا کہ طالبان کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ ثابت کیا گیا کہ کوڑے مارنے کی ویڈیو ہی جعلی ہے (حالانکہ طالبان کے ترجمان مسلم خان نے ٹیلی وژن پر چان بی بی کو کوڑے مارنے کا دفاع کیا)۔

آرمی پبلک سکول پشاورالبتہ ایک ایسا سانحہ تھا کہ جس پر اوریا مقبول جان ایسے مذہبی جنونی لوگ بھی پردہ نہیں ڈال سکتے تھے۔ طالبان کے خلاف رائے عامہ چوبیس گھنٹے کے اندر ایسا بدلا کہ ضیا آمریت کی سب سے خونی باقیات کے دفاع میں اب لال مسجد کے مولوی اور مولانا طارق جمیل بھی سر عام نہیں بول رہے تھے۔

پاکستان سکتے (Shock) میں تھا۔ پاکستان کے مینجرز نے سوچا اس سکتے کا فائدی اٹھاو اور مشترکہ یاداشت (Collective Memory)پر نیو لبرل ڈاکہ ڈالو۔

پچھلے چھ سال سے 16 دسمبر کے دن مجال ہے کہیں ڈھاکہ کا ذکر آیا ہو۔ صبح سات بجے ہی اے پی ایس پشاور کا ذکر شروع ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ اے پی ایس کے معصوم بچوں کے چہرے سکرین پر دیکھ کر ہر انسان کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ انسان سکتے میں چلا جاتا ہے۔ سکتے کی اس حالت میں ہمیں یاد ہی نہیں رہتا کہ حبیب جالب نے یہ شعر کیوں کہے تھے:

محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو منزل کھو رہے ہو

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔