طاہر کامران
طارق فارانی صاحب کے انتقال کے ساتھ دنیا ایک بے غرض اور سرشار انسان سے محروم ہو گئی ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اور ان کی زندگی بھر کے شوقِ موسیقی نے انہیں اپنے تمام رفقا میں منفرد بنا دیا تھا۔
وہ نذیر احمد میوزک سوسائٹی کے روح رواں تھے (اس سوسائٹی کا آغاز 1930ء میں کلچر کلب کے نام سے ہوا تھا، بعد میں اس کا نام نذیر احمد میوزک سوسائٹی رکھا گیا)۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق پرنسپل پروفیسر نذیر احمد موسیقی کے بہت دلدادہ تھے۔ وہ فریڈرک نچے کی طرح موسیقی کے بغیر زندگی کو ایک خطا ہی سمجھتے تھے۔
تعجب کی بات نہیں کہ نذیر صاحب کی زیر سرپرستی موسیقی گورنمنٹ کالج کے تشخص کا مستقل حصہ بن گئی۔ انہوں نے ثقافتی اظہار کو فروغ دیا۔ انہوں نے طلبہ میں ذوق جمالیات پیدا کیا اور ان کے اندر انسانیت کو پروان چڑھایا جس سے وہ سوچ کو وسعت دے سکیں۔
فارانی صاحب پروفیسر نذیر احمد کے لائق جانشین ثابت ہوئے۔ انہوں نے میوزک سوسائٹی کو آگے بڑھایا اور ان کی دیکھ بھال سے اس نے خوب فروغ پایا۔ ان سے ملنا اور کام کرتے دیکھنا موسیقی کے بارے میں افلاطون کی اس گفتگو کی یاد دلاتا کہ یہ کائنات کو روح بخشتی ہے، ذہن کو پنکھ لگاتی ہے، تخیل کی پرواز اور ہر چیز کو زندگی عطا کرتی ہے۔
وہ واقعتاً ایک نایاب انسان تھے۔ اب جب کہ وہ سفر آخرت پر روانہ ہو گئے ہیں تو جی سی یو کی میوزک سوسائٹی کی بقا خطرے میں پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میوزک کے ساتھ فارانی صاحب جیسا والہانہ لگاؤ شاید ہی کسی میں پایا جاتا ہو۔ ایک روشن خیال اور پڑھا لکھا شخص جو موسیقی کا بھی دلدادہ ہو، اس جیسے شخص کا ملنا مشکل ہے۔ ان کی تنخواہ کبھی بھی ان خدمات کے مطابق نہیں رہی جو انہوں نے پیش کیں۔ موسیقی کے فروغ کے علاوہ ان کے بہت سے تربیت یافتہ شاگردوں کو روزگار بھی ملا۔
فارانی صاحب ایک آئیڈیلسٹ تھے اور جیسا کہ ہنری فورڈ نے نہایت ہی موزوں بات کی: ”ایک آئیڈیلسٹ وہ شخص ہے جو دوسرے لوگوں کو خوشحال ہونے میں مدد دیتا ہے“، فارانی صاحب بھی ایسے ہی تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اس بات کو یقینی بنانے کے لئے صرف کی کہ میوزک سوسائٹی جی سی یو کی بہترین سوسائٹیوں میں سے ایک ہو اور ان کی سرپرستی میں سیکھنے والوں کی ملازمت کے لیے مانگ بھی ہو۔
وہ بہت ہی کم امنگیں رکھنے والے انسان تھے۔ موسیقی کے جذبے کو پروان چڑھانا ہی ایک ایسا صلہ تھا جس کی انہیں پرواہ تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی بے لوث طبیعت نے زندگی بھر ان کے بہت کم مداح پیدا کئے۔ ان مداحوں نے ان سے گرو کی طرح پیار کیا، جو حقیقت میں وہ تھے۔
جی سی یو سے ان کی محبت غیر متزلزل تھی اور ادارے کی خدمت کرنا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ انگریزی ادب کی ڈگری پا کر فارانی صاحب نے وہ راستہ چنا جو شاہراہ عام نہ تھی، اس امید پر کہ شاید وہ کچھ نیا کر سکیں۔ میوزک کے لئے اپنے لگاؤ کو محسوس کرنے کے بعد انہوں نے کمال مہارت کے ساتھ بانسری بجائی، انہوں نے اپنی زندگی اس لگاؤ کی نذر کر دی اور اسے کبھی منافع بخش کیریئر میں تبدیل کرنے کا سوچا بھی نہیں۔
انگریزی زبان و ادب کی تعلیم دینا یقیناً ان کیلئے معاشی طور پر بہتر ثابت ہوتا لیکن انہوں نے اپنے شوق کی آبیاری کو ترجیح دی اور وہی کیا جس پر وہ یقین رکھتے تھے۔ اس کے لئے انہیں اپنے خاندان اور دوستوں کے زبردست دباؤ کا بھی سامنا رہا۔ تاہم انہوں نے کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔
ایک ناگوار بیرونی منظر نامے کے باوجود فارانی صاحب اندر سے مضبوط تھے۔ اس لیے کہ وہ بنیادی طور پر ایک آئیڈیلسٹ تھے۔ وہ جنوبی کوریائی گلوکار چوئی منہو کے اس قول کی مجسم صورت تھے: ”میں آئیڈلسٹ ہوں لہٰذا میری زندگی کے نقطہ نظر کو کبھی زوال نہیں، چاہے کچھ ناممکن بھی ہو، میں اپنی بساط کے مطابق ہر مشکل سے گزر جاؤں گا“۔
80ء کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی سمیت جس سے گورنمنٹ کالج کا الحاق تھا، کوئی بھی یونیورسٹی میوزک کی تعلیم نہ دیتی تھی، فارانی صاحب گورنمنٹ کالج کے ساتھ بطور پروگرام آفیسر میوزک وابستہ ہوئے، یہ اسامی خاص طور پر گورنمنٹ کالج لاہور کیلئے تشکیل دی گئی۔
ان کا کیریئر 1963ء میں شروع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے موسیقی کے مختلف شعبوں میں نوجوانوں کی تربیت کرنا اپنا زندگی کا مشن بنایا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ سرکاری شعبے کے تعلیمی اداروں میں موسیقی کی تعلیم موجود نہ تھی، فارانی صاحب نے خواہش مند موسیقاروں کو مطلوبہ مہارتوں سے بہرہ مند کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان میں سے بیشتر کو میوزک اساتذہ کی حیثیت سے اسکولوں میں ملازمت مل گئی۔
اس کے علاوہ گلوکاروں اور موسیقاروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے ابتدائی سال ان کی نگرانی میں گزارے۔ اس طرح انہوں نے ان دنوں بھی جی سی یونیورسٹی کے لبرل تشخص کو نمایاں رکھا جب موسیقی کو فضول اور بے ہودہ چیز سمجھا جاتا تھا۔ دباؤ ان کے جوش و جذبے کو کم نہ کر سکا اور وہ مستقل مزاجی کے ساتھ ثابت قدم رہے۔
جی سی یو کیمپس میں فارانی صاحب کے زیادہ دوست نہ تھے، خاص طور پر اساتذہ میں سے۔ شاید اس کی وجہ انتظامیہ اور اساتذہ کی جانب سے ان کے ساتھ برتی جانی والی بے اعتنائی تھی کہ وہ شاذ و نادر ہی کیمپس میں زیادہ لوگوں سے گھلتے ملتے تھے۔ کسی مذہبی رسم کی طرح ان کا معمول بھی بالکل طے شدہ تھا۔
بخاری آڈیٹوریم سے متصل اوپر کی منزل پر واقع ان کے دفتر تک رسائی تنگ سیڑھیوں کے ذریعے ہوتی تھی۔ کمزور گھٹنوں والوں کیلئے ان کے دفتر تک پہنچنا مشکل تھا۔ کمرے کے ایک جانب مسٹر جعفر بیٹھے ہوتے جو طبلہ بجاتے رہتے اور نوجوان گلوکاروں کو فنی باریکیاں سکھاتے۔ اگر کسی میوزیکل پرفارمنس کا شیڈول نہ ہوتا تو فارانی صاحب شام کو گھر چلے جاتے۔
ہر جمعرات کو باقاعدگی کے ساتھ موسیقی کا ایک کنسرٹ ہوتا تھا۔ موسیقی پیش کرنے اور سننے کے لئے سب کا خیر مقدم کیا جاتا۔ اس دن ان کا کمرہ کچھا کھچ بھرا ہوتا۔ میں جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر زیدی سے ملتمس ہوں کہ وہ اس کمرے کا نام طارق فارانی کے نام سے منسوب کریں اور سال کے بہترین گلوکار کے لئے ان کے نام پر ایوارڈ دیا جائے۔
اختتام پر میں راوینز اور اولڈ راوینز کی طرف سے اس بے لوث روح طارق فارانی صاحب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جن کا ہم سب پر بہت بڑا قرض ہے۔ فارانی صاحب آپ کو فراموش نہیں کیا جائے گا۔
بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے