سوچ بچار

علامہ اقبال کا اپنے پوسٹ ماڈرن مجسمہ ساز کے نام عالم بالا سے خط

فاروق سلہریا

از عالم بالا

۲ فروری ۱۲۰۲ء

برخوردار نور چشم، سلامت رہو۔

عالم بالا سے میں تمہیں دعائیں ہی بھیج سکتا ہوں۔ ویسے بھی میری شائستگی مجھے اجازت نہیں دیتی کہ میں اس زبان میں گفتگو کروں جس میں ولید اقبال کے ہم جماعت کرتے ہیں۔ ہاں مگر سٹپٹاہٹ میں مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ میرا ایسا مجسمہ بنانے پر میں تمہیں کوسوں یا اس نا اہل حکومت کو جس نے تم جیسے نا اہل ڈھونڈے۔

مجھے تو بلکہ یہ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ اس مجسمے کو اپنا مجسمہ کہوں یا نہ کہوں۔ کل سعادت حسن منٹو نے مجھے تمہارے بنائے ہوئے مجسمے کی وائرل تصاویر واٹس ایپ کیں تو میرا خون کھول گیا۔ دل چاہا شکوہ کے عنوان سے نئی نظم لکھوں۔

کسی طرح یہ تصاویر مولانا مودودی تک بھی پہنچ گئیں۔ مولانا نے فوری خط لکھا اور فرمایا: ’اسی لئے اسلام میں مجسمہ سازی کی ممانعت فرمائی گئی ہے‘۔

کل شام فیض احمد فیض مشروب جنت نوش کرنے حسب معمول میرے ہاں آئے تو پتہ چلا ان تک بھی اس مجسمے کی تصاویر پہنچ چکی ہیں۔ دلاسہ دیتے ہوئے بولے: ”اقبال چچا! غصہ تھوک دیجئے۔ اگر اس پوسٹ ماڈرن دور میں میوزک انڈسٹری طاہر شاہ کو گلوکار بنا سکتی ہے تو تبدیلی کے اس دور میں پی ایچ اے والے نامعلوم مالیوں سے آپ کا مجسمہ کیوں نہیں بنوا سکتے‘۔

’کیا پاکستان میں اب مالی مجسمے بناتے ہیں؟‘ میں نے فیض سے پوچھا۔ فیض کے ساتھ ایک نوجوان بھی آیا تھا۔ شائد حسن ناصر نام تھا۔ غصے سے بولا: ”جمعیت کے شاہین آئے روز این سی اے پر بت شکن حملے کریں گے تو مجسمے پھر مالیوں سے ہی بنوانے پڑیں گے“۔

سعادت حسن منٹو کا تو ہنس ہنس کا برا حال ہے۔ کہہ رہا ہے: ”علامہ شکر کریں مالیوں نے بنایا ہے سپاہیوں نے نہیں۔ اگر کوئی ریٹائرڈ جرنیل پی ایچ اے کا ڈائریکٹر لگا ہوتا تو مالیوں کی بجائے یہ کارنامہ فوجیوں نے سر انجام دینا تھا۔ سنا ہے یہ مجسمہ گرایا جا رہا ہے۔ مالیوں نے بنایا ہے، اس لئے گرایا جا رہا ہے۔ فوجیوں نے بنایا ہوتا تو قومی مفاد میں اسے گرانا بھی ممکن نہ رہتا“۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مجھے اس مجسمے کا برا نہیں منانا چاہئے کیونکہ یہ مجسمہ مالیوں نے نہیں پاسٹ ماڈرنسٹوں نے بنایاہے اوریہ مجسمہ پوسٹ ماڈرنسٹ آرٹ کا شاہکار ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پوسٹ ماڈرنسٹ بھی میری طرح یورپی انلائٹن منٹ کے خلاف ہیں۔

مجسمہ ساز برخوردار! ممکن ہے تم مالی نہیں کوئی پوسٹ ماڈرنسٹ ہو لیکن بات سنو میں نے دوسروں کے بچوں کو شاہین بنانے اور مغربی تہذیب سے باز رہنے کی تلقین کی تھی۔ میں نے تو اپنے بچوں کی نینی بھی ایک جرمن خاتون رکھی تھی۔ میرے مجسمے بنانے ہیں تو رینے سانس کا مطالعہ کرو۔

فقط۔

محمداقبال مرحوم

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔