لاہور (جدوجہد رپورٹ) ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے خیبر پختونخوا کی سرکاری جامعات کو ملک کی مہنگی ترین قراردیتے ہوئے ان پر غیر ضروری اخراجات کی بہتات کا الزام عائد کیا ہے۔
یہ الزامات انہوں نے گورنر ہاﺅس میں سرکاری جامعات کے انتظامی اور مالی امور کے بار ے میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عائد کئے۔ گورنر کے پی کے و چانسلر سرکاری جامعات شاہ فرمان کی زیر صدارت اجلاس میں صوبائی اور وفاقی حکام نے شرکت کی۔
ڈان کے مطابق جاری سرکاری بیان میں کہا گیا کہ شرکاءاجلاس نے جامعات کے انتظامی، مالی اور تعلیمی امور پر تبادلہ خیال کیا اور اصلاحی اقدامات کی تجویز پیش کی۔ ڈان کے مطابق چیئرمین ایچ ای سی طارق بنوری نے اصرار کیا کہ جامعہ پشاورنے ایک طالب علم پر سالانہ تین لاکھ روپے خرچ کئے ۔ انہوںنے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں بھی ضرورت سے زیادہ تعلیمی اخراجات کی شکایت کی۔
تینوں جامعات شدید مالی بحران کی وجہ سے تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی کے مسائل کا شکار ہیں۔ صوبائی انسپکشن ٹیم کے ذریعے کی گئی اعلیٰ سطحی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں 2 ہزار 756 ملازمین کی غیر قانونی تقرریاں کی گئیں اورغیر مجازملازمین کو متعدد الاﺅنسز کی ادائیگی سمیت مالی طور پر یونیورسٹی کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔
63 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ کے مطابق جامعہ پشاور اپنے ملازمین کو ہر سال کروڑوں روپے مختلف مدوں میں ادا کر رہی ہے جس کے وہ حقدار نہیں ہیں۔ اجلاس میں وائس چانسلر کی تقرری کے طریقہ کار، سرچ اینڈ سکروٹنی کمیٹی کی اہلیت، معیار ، کردار اور وائس چانسلر کی کارکردگی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
شرکا نے سرکاری جامعات میں نان ٹیچنگ فیکلٹی کی بھرتیوںکو کنٹرول کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ جامعات کے بیرونی آڈٹ اور ان کے مالی امور کو بہتر بنانے کے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ گورنر نے کہا کہ سرچ اینڈ سکروٹنی کمیٹی کو وائس چانسلر کے انتخاب اور شارٹ لسٹنگ کے طریقہ کار کا جائزہ لینا چاہیے اور اس حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ وائس چانسلر کی پوزیشن مکمل طور پر انتظامی ہے۔
کے پی کے میں وائس چانسلروں کی تقرری کےلئے تعلیمی سرچ کمیٹی کے سربراہ عطا الرحمان کا کہنا تھا کہ وائس چانسلر کی تقرری کےلئے 40 نمبر انتظامی تجربے کے، 30 فیصد تعلیمی مہارت اور 30 فیصد تحقیق کےلئے مختص ہوتے ہیں۔
گورنر نے بتایا کہ جامعات کے رجسٹرار، کنٹرولر، پرووسٹ اور خزانچی کے عہدوں کو اساتذہ کی بجائے پیشہ ور افراد سے پر کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ ماضی میں پشاور یورنیورسٹی کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن یہ الزام عائد کر چکی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بڑی تعداد میں درجہ چہارم کے ملازمین کو نوکریوں سے غیر قانونی قرار دیکر فارغ کر دیا ہے ، ایسا صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ ملازمین اے این پی کے دور حکومت میں تعینات کئے گئے تھے۔ اب تحریک انصاف کی حکومت ان آسامیوں پر اپنے لوگوں کو مستقل بنیادوں پر تقرریاں کروانا چاہتی ہے۔
اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن مالی بحران کو جواز بنا کر جامعات کو پرائیویٹائز کرنے کی سازش کا الزام بھی عائد کر چکے ہیں۔ ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتی اور جامعات کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے صوبوں کو ملنے والے ایچ ای سی کے فنڈز کی تقسیم کے دوران جامعات کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ہر جامعہ کے حق میں ملنے والے کم فنڈز بھی مالی بحران کی وجہ قرار دیئے جا چکے ہیں۔ اب مالیاتی بحران کا بہانہ بنا کر جامعات میں انتظامی نوعیت کی تبدیلیاں لانا، وائس چانسلر اوردیگر ذمہ دار عہدوں پر اپنے لوگوں کو تعینات کرنا اور پھر جامعات کو نجی تحویل میں دیئے جانے کے منصوبہ جات کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔