فاروق سلہریا
پیر کے روز (22 مارچ) صحافی اور شاعر الفت بخاری کرونا کا شکار ہو کر داغ مفارقت دے گئے۔ اپنی وفات سے پانچ دن قبل انہوں نے اپنے فیس بک پر کرونا وائرس کے حملے بارے لکھا۔ بہت سے دوستوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا…افسوس وہ جانبر نہ ہو سکے۔
الفت بخاری لاہور پریس کلب کے رکن اور لاہور میں اردو صحافت کا ایک اہم کردار تھے۔ تمام معروف اور کچھ غیر معروف اخبارات میں کام کیا۔ رپورٹنگ بھی کی مگر زیادہ وقت نیوز روم میں گزارا۔ لگ بھگ تیس برس تک شعبہ صحافت سے وابستہ رہے۔
نوے کی دہائی میں چند سال ہفت روزہ ’مزدور جدوجہد‘سے بھی وابستہ رہے۔ ’مزدور جدوجہد‘ لیبر پارٹی پاکستان کا ترجمان اخبار تھا۔ لیبر پارٹی رکن کے طور پر میں بھی ’مزدور جدوجہد‘ کے لئے لکھتا اور رضاکارانہ طور پر کام کرتا تھا۔
’مزدور جدوجہد‘ سے وابستگی کے دور میں ہی الفت بخاری سے شناسائی ہوئی۔ وہ جلد ہی ’مزدور جدوجہد‘ کے ارد گرد موجود لوگوں میں گھل مل گئے گو وہ نہ تو لیبر پارٹی کے باقاعدہ رکن تھے نہ ہی مارکس وادی سیاسی کارکن مگر ترقی پسند سوچ سے ہمدردی رکھتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ادب سے گہرا شغف تھا اور ان کے دور ادارت میں ’مزدور جدوجہد‘ نے بھی ایک زبردست ادبی ٹرن لیا۔
پہلی بار انہوں نے ’مزدور جدوجہد‘ کے بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین اور استاد دامن پر پنجابی زبان میں خصوصی شمارے شائع کئے۔ ان کی اس کوشش سے متاثر ہو کر سرائیکی وسیب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے لیبر پارٹی کے ساتھیوں اور ’مزدور جدوجہد‘ کے ہمدردوں نے سرائیکی اور سندھی زبان میں ’مزدور جدوجہد‘ کے خصوصی شمارے تیار کرائے جنہیں لاہور سے شائع کیا گیا۔ مجھے یاد ہے خواجہ غلام فرید، شیخ ایاز اور شاہ عبدالطیف بھٹائی پر سرائیکی اور سندھی زبانوں میں ’مزدور جدوجہد‘ کے خصوصی شمارے شائع ہوئے۔ غالباً پشتو میں بھی کوشش ہوئی۔
یوں ’مزدور جدوجہد‘ حقیقی معنوں میں قومی زبانوں کا ایک ترقی پسند اخبار بن سکا اور اس کے خصوصی شماروں نے لیبر پارٹی کو نئے حلقوں میں متعارف کرایا۔ اس کے ساتھ ساتھ حبیب جالب، فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو اور دیگر ترقی پسند مشاہیر پر بھی شمارے شائع ہوئے۔ ترقی پسند صحافت اور ترقی پسند ادب کے مابین جو ایک تاریخی تعلق برصغیر میں موجود رہا ہے، الفت بخارئی کی وجہ سے ’مزدور جدوجہد‘ کی شکل میں وہ تعلق بحال ہوا۔
’مزدور جدوجہد‘ کے یہ شمارے محدود سطح پر سہی مگر سیاسی حلقوں میں کافی دلچسپی سے ہاتھوں ہاتھ لئے گئے۔ مثال کے طور پر جب یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان ہوا تو پریس کے ساتھ اپنی پہلی گفتگو میں انہوں نے ہاتھ میں ’مزدور جدوجہد‘ کا فیض نمبر تھام رکھا تھا۔ اپنی گفتگو میں بھی انہوں نے (منافقانہ انداز میں سہی) فیض صاحب کا ذکر کیا۔
الفت بخاتی کی وجہ سے ’مزدور جدوجہد‘ کے صفحات ہی نہیں، دفتر بھی ادبی سرگرمیوں کا گڑھ بن گیا۔ معروف پنجابی شاعر ویر سپاہی الفت بخاری کی وجہ سے اکثر ’مزدور جدوجہد‘ آتے۔ فرحت عباس شاہ بھی کبھی کبھار آ جاتے۔ کچھ یاد گار مشاعرے بھی ’مزدور جدوجہد‘ کے دفتر میں منعقد ہوئے۔ یوں کچھ سال تک لیبر پارٹی اور ’مزدور جدوجہد‘ کا مشترکہ دفتر سیاسی اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے علاوہ ادبی سرگرمیوں کا بھی گڑھ بنا رہا۔ اسی دوران عارف شاہ پروہنا بھی لیبر پارٹی کا حصہ بن گئے۔ وہ پنجابی زبان کے زبردست شاعر تھے۔ مزدور ادیب قمر یورش تو پہلے سے ہی دفتر آیا جایا کرتے تھے۔ ان تمام حضرات کی وجہ سے یہ ادبی ماحول قائم رہا مگر شائد الفت بخاری اس سارے عمل میں ایک اہم ترین کردار تھے۔
ان کی ذاتی زندگی میں بھی صحافت کے علاوہ ادب، بالخصوص پنجابی ادب، سے لگاو اہم ترین عنصر تھا۔ ان کی شخصیت کا دوسرا اہم پہلو ان کی معصومیت اور دوستوں سے مخلصانہ محبت تھی۔ جب موقع ملتا دوستوں کو گھر کھانے پر دعوت دیتے۔ پریس کلب یا ’مزدور جدوجہد‘ کا دفتر، دوستوں کی محفل میں بیٹھنا پسند تھا گر محفل میں اکثر خاموش بیٹھتے اور کھلکھلا کر ہنستے۔ صرف نام کے الفت نہیں تھے۔ الفتوں سے بھرے ہوئے تھے۔
یہی وجہ کہ جب ’مزدور جدوجہد‘ سے علیحدہ بھی ہوگئے تو لیبر پارٹی کے ساتھیوں سے ان کی دوستیاں برقرار ہیں۔ پریس کلب میں بھی ان کی دوستیاں مثالی تھیں۔ نہ جانے کیوں ان کی یہ عادت اس وقت یاد آ رہی ہے کہ جیب میں شاندار پین (Pen) رکھتے تھے اور انتہائی خوش خط تھے۔ افسوس کرونا نے وقت سے پہلے انہیں ان کے خاندان، جس سے وہ بے حد محبت کرتے اور دوستوں سے چھین لیا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔