راولاکوٹ (حارث قدیر) ایران میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے متوقع جانشین اور قدامت پسندجج ابراہیم رئیسی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے ہیں۔
ریاستی ٹی وی کے مطابق ابراہیم رئیسی نے 62 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ ان انتخابات میں تقریباً 6 کروڑ ووٹرز کو حق رائے دہی حاصل تھا، جن میں سے 2 کروڑ 80 لاکھ ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے کم رہا ہے جبکہ گزشتہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ 73 فیصدسے زیادہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
ابراہیم رئیسی نے ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ ان کے مد مقابل 3 امیدوار تھے۔ ایرانی صدارتی انتخابات میں کئی امیدواروں کو حصہ لینے سے روکا بھی گیا ہے۔ ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے 600 خواہشمند سامنے آئے تھے، جن میں 40 خواتین بھی شامل تھیں۔ گارڈین کونسل میں شامل 12 جیورسٹس اور مذہبی زعما نے صرف 7 امیدواروں کے نام ہی فائنل کئے جن میں سے 3 امیدواروں نے انتخابات سے قبل ہی اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے۔
واضح رہے کہ گارڈین کونسل ایک غیر منتخب ادارہ ہے جو امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ کرتا ہے۔
بی بی سی فارسی کی نامہ نگار قصرا ناجی کا کہنا ہے کہ متعدد ایرانی ان انتخابات کو سخت گیر عناصر کی طرف سے طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں جو بظاہر ماضی میں اپنی کارکردگی کی بدولت آزادانہ اور شفاف انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔
ابراہیم رئیسی ایران کے منصف اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سخت گیر خیالات رکھتے ہیں۔
ابراہیم رئیسی پر امریکہ نے متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان پر ماضی میں سیاسی قیدیوں کی پھانسی دینے جیسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔
رہبر اعلیٰ کے بعد ایران میں صدر کا عہدہ ملک میں سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اگرچہ صدر کا داخلہ اور خارجہ پالیسی پر گہرا اثر و رسوخ ہوتا ہے مگر سپریم لیڈر یعنی رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای کی ہر ریاستی معاملے پر بات حرف آخر ہوتی ہے۔
ابراہیم رئیسی 60 برس کے ہیں اور وہ اپنے کرئیر میں زیادہ وقت پراسیکوٹر کے طور پر فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ انھیں 2019ء میں عدلیہ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ سنہ 2017ء میں وہ صدر حسن روحانی سے بڑے مارجن سے ہار گئے تھے۔