حارث قدیر
سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں شہید کشمیر مقبول بٹ شہید کے ساتھ منگلاقلعہ میرپورمیں ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے مقبول بٹ شہید کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت کا وزیراعظم بنائے جانے کی آفر کی تھی جسے مقبول بٹ شہید نے مسترد کر دیا تھا۔
گزشتہ روز معروف صحافی ’مرتضیٰ سولنگی‘ نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس ملاقات کی تصویر شیئر کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ”وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو 1974ء میں منگلا قلعہ میرپور میں چوہدری نور حسین، حفیظ پیرزادہ اور مقبول بٹ کے ہمراہ بیٹھے تھے۔ اطلاعات کے مطابق یہاں ذوالفقار علی بھٹو نے مقبول بٹ کو ’اے جے کے‘(پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر) کی وزارت عظمیٰ کی آفر کی جسے انہوں نے مسترد کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق مقبول بٹ نے کہا کہ میں ڈھائی ضلعوں کا وزیراعظم نہیں بنوں گا۔“
تاہم اس ملاقات کے حوالے سے سرکاری ذرائع یا ملاقات میں موجود تینوں شخصیات میں سے اس طرح کا دعویٰ کسی نے بھی نہیں کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے مقبول بٹ شہید کو پیپلزپارٹی شمولیت کی صورت وزارت عظمیٰ دیئے جانے کی آفر کی تھی جسے انہوں نے مسترد کیا تھا۔
چیئرمین جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سردار محمد صغیر خان ایڈووکیٹ نے ’جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”یہاں قیادت اور شخصیات کے کردار کو افسانوی بنا کر پیش کرنے کا رواج ہے۔ پیپلز پارٹی میں شمولیت کی صورت اس طرح کی آفر کی حد تک بات ہو سکتی ہے لیکن اڑھائی اضلاع کا وزیراعظم نہ بننے کا جواب دینے والی بات قطعی درست نہیں ہے کیونکہ مقبول بٹ شہید اس ملاقات کے ایک سال بعد خوداپنی جماعت ’محاذ رائے شماری‘ کے پلیٹ فارم سے اسی اسمبلی کی دو نشستوں سے بطور امیدوار انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔ اگر اس دعوے میں صداقت ہوتی تو پھر مقبول بٹ شہید انتخابات میں حصہ نہ لیتے کیونکہ انتخابات میں حصہ اسی لئے لیا جاتا ہے کہ وزارت عظمیٰ حاصل کی جا سکے۔“
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق مرکزی صدر ’راشد شیخ‘ کا موقف بھی ملتا جلتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ”اس ملاقات میں موجود شخصیات میں سے کسی نے اس طرح کی بات نہیں کی، یا کم از کم میری نظر سے نہیں گزری، البتہ مقبول بٹ شہید کی زندگی پر لکھے گئے مختلف مضامین میں اس بات کا ذکر ملتا ہے۔ کچھ جگہوں پر یہ لکھا گیاہے کہ پیپلزپارٹی میں شمولیت کی صورت وزارت عظمیٰ کی آفر کی گئی اور کچھ جگہوں پر لکھا گیا ہے کہ وزارت عظمیٰ کی آفر دی گئی جسے اڑھائی اضلاع کا وزیراعظم نہ بننے کا موقف رکھتے ہوئے مسترد کر دیا گیا۔“
انکا کہنا تھا کہ ”اگر مقبول بٹ شہید اڑھائی ضلعوں پرمشتمل خطے کی وزارت عظمیٰ کے خواہشمند نہ ہوتے تو اس ملاقات کے ایک سال بعد دو حلقوں سے انتخابات میں حصہ نہ لیتے۔ مقبول بٹ شہید اس وقت ’محاذ رائے شماری‘ کا حصہ تھے، مذکورہ جماعت کا سیاسی پروگرام ’رائے شماری‘ کا حق مانگنے کے مطالبہ کے گرد تھا، جموں کشمیر کی مکمل آزادی کا پروگرام اس جماعت کا تھا ہی نہیں۔ اس لئے زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ تمام تر باتیں صرف اور صرف لیڈرشپ کو افسانوی کردار دینے کی وجہ سے کی گئی ہیں۔ میرے خیال میں مقبول بٹ شہید کے اپنے بیانات اور ان کی اپنے مقصد کیلئے دی گئی قربانی انکی عظمت کو بیان کرنے کیلئے کافی ہے اور ہم مقبول بٹ شہید کو ایک انسان ہی سمجھتے ہیں جس نے جموں کشمیر کی آزادی اور طبقات سے پاک معاشرے کے قیام کیلئے اپنی جان قربان کر کے ایک نئی تحریک کی بنیاد رکھی اور ہم اس تحریک اور اس شمع آزای کو موجودہ عہد کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھا رہے ہیں۔“
راشد شیخ کا کہنا تھا کہ ”اہم کام اس وقت یہی ہے کہ فلسفہ مقبول بٹ شہید کو موجودہ عہد کے تقاضوں کے مطابق سمجھا جائے اور انکی جدوجہد کو جدید تقاضوں کے ساتھ استوار کرتے ہوئے آگے بڑھایا جائے۔“