یاسمین افغان
گذشتہ روز سقوط قابل کو ٹھیک ایک ماہ مکمل ہو گیا۔ کابل کے طالبان کے ہاتھوں سقوط سے پھیلنے والی افراتفری کو پوری دنیا نے دیکھا۔ افغانستان دنیا کے تقریباً ہر نیوز چینل پر بحث کا اہم ترین موضوع بن گیا۔ کابل ایئرپورٹ کے خوفناک مناظر ہر نیوز بلیٹن پر دکھائے گئے۔ دسیوں ہزارلوگوں نے کسی بھی طرح کابل چھوڑنے کی کوشش کی۔ اڑتے ہوائی جہاز سے لٹکتے ہوئے 4 نوجوان موت کے منہ میں چلے گئے۔ ایئرپورٹ کے باہر طالبان نے لوگوں کو مارا پیٹا اور دہشت زدہ کیا اور پھر ائیر پورٹ کے باہر خودکش حملے ہوئے جن میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
افغانستان کے یوم آزادی کے موقع پر خواتین، مردوں، جوانوں اور بوڑھوں نے کابل اور دوسرے بڑے شہروں میں مارچ کیا اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح طالبان نے افغانستان کا قومی پرچم اٹھانے کے لیے لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کیا لیکن پھر بھی پوری دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔
جلد ہی امریکہ 31 اگست 2021ء کو افغانستان سے نکل گیا اور اس کے ساتھ ہی زیادہ تر بین الاقوامی میڈیابھی افغانستان سے نکل گیا۔ افغان خواتین سڑکوں پر آئیں اور مساوی حقوق کا مطالبہ کیا۔ انہیں مارا گیا، مردوں اور عورتوں نے باہر آکر احتجاج کیا اور نعرے لگائے، ”آزادی، آزادی“ اور جب طالبان انہیں تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے، آنسو گیس چلائی جا رہی تھی تو دنیا خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔
اور تو اور افغانستان کا اپنا میڈیا خاموش کر دیا گیا۔ خواتین کے مظاہرے کور کرنے والے صحافیوں کی خبر تو باقی دنیا تک پہنچی مگر یہ تشدد بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ادہر اسکرین سے میوزک اور تفریح کے پروگرام بھی غائب ہیں۔
کابل اور افغانستان میں ایک ماہ کے اندر ہی بہت سی چیزیں بدل گئی ہیں۔ یہ تبدیلی بہتر کے لیے نہیں بلکہ بدترین کے لیے ہے۔ لوگ مسلسل خوف میں رہتے ہیں، خاص طور پر خواتین حقوق کے کارکن، انسانی حقوق کے کارکنان، صحافی اور سابق سیکورٹی فورسزکے اہلکار، ہر کوئی طالبان کے ظالمانہ قانون کو قبول کرنے پر مجبور ہے۔
نقدی کا بہاؤ رک گیا ہے، سرکاری ملازمین کو تنخواہ نہیں ملی ہے اور زیادہ تر لوگ نوکریوں سے باہر ہیں، خاص طور پر افغان خواتین نوکریوں سے باہر ہیں، خوراک کی قیمتیں زیادہ ہیں اور ادویات تک محدود رسائی ہے۔ یونیورسٹیوں سے مخلوط تعلیم ختم ہو چکی، اسکولوں کا آغاز چھٹی جماعت تک ہے۔
اس ایک مہینے کے دوران مجموعی طور پر لوگوں نے اپنی تقریر کی آزادی کھو دی ہے، خواتین کو گھروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ زندگی مکمل طور پر رک گئی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے افغانستان 1990ء کی دہائی میں واپس آگیا ہے اور وہی فلم ایک بار پھر چلائی جارہی ہے۔
کابل میں یونیورسٹی کی طالبہ پلوشہ نے مجھ سے کہا کہ ”کیا آپ اسے زندگی کہتے ہیں؟ افغان خواتین کو اب انسان نہیں سمجھا جاتا۔“ فہیمہ (فرضی نام)، جو پیشے کے لحاظ سے ایک ٹیچر ہیں، نے مجھے بتایا کہ ”یہ ایک مہینہ مجھے ایک سال کی طرح لگتا ہے، ہم نے سب کچھ کھو دیا ہے۔ ہمیں بہتر کل کی کوئی امید نہیں ہے۔“
ماکروریان کے رہائشی وحید اللہ (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ”مجھے لگتا ہے کہ میں جہنم میں رہ رہا ہوں۔ میں خوف کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ہمارے پاس کھانا مشکل سے ہے اور میں نے اپنی نوکری کھو دی ہے۔“ انکی بہن کا کہنا تھا کہ ”افغانوں کا کیا قصور ہے؟ ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک بڑی جیل میں رہ رہے ہیں۔“
افغان آبادی کو ملک کے مختلف حصوں میں اپنے گھروں سے زبردستی بے دخلی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور کابل میں اندرونی طور پر بے گھر افراد اور خواتین اپنے تقریباً تمام ہی حقوق سے محروم ہو تی جا رہی ہیں، افغانستان اب شہ سرخیوں میں بھی نہیں رہا۔ ایک مہینے میں ہی افغانوں کو ان کے دکھوں کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔