یاسمین افغان
ان دنوں پرانے دوستوں سے ملنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ فون پر بھی زیادہ بات نہیں ہوتی۔ دو بدو ملاقات تو اور بھی مشکل ہے۔جب سے طالبان کا قبضہ ہوا ہے، کابل کیا پورے ہی ملک میں زندگی تھم سی گئی ہے۔
خواتین تو گھروں میں بند ہو کر رہ گئی ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ طالبان نے انہیں گھروں تک محدود رہنے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔ وہ اس لئے بھی باہر جانے سے کتراتی ہیں کہ وحشی طالبان کسی بھی سڑک یا چوک پر ان کی ہتک کر سکتے ہیں۔
گیارہ ستمبر کے بعد خواتین کے لئے کچھ بہتریاں ہوئی تھیں۔کابل میں ہی نہیں،ملک بھر میں۔خواتین نے یونیورسٹیوں میں جانا شروع کیا۔ نوکریاں شروع کیں۔شام کو وہ اپنی دوستوں کے ہمراہ کابل اور دیگر بڑے شہروں کے کیفت یا ریستورانوں میں بیٹھ کر ایک اچھی شام گزار تی تھیں۔ ایسے کتنے ہی کیفے تھے کابل میں۔کابل کی باولنگ ایلی ایک ایسی ہی جگہ تھی جہاں شام کو بہت سی نوجوان خواتین (اور مرد) دوستوں کے ساتھ شام گزارنے آتے۔ یہاں ایک کیفے تھا جو کافی مقبول تھا۔آئے خانم، آدم و حوا بھی نوجوانوں میں کافی مقبول کیفے تھے۔
ان میں سے کچھ کیفے تھے جہاں مشاعروں کا اہتمام بھی ہوتا۔ نوجوان یہاں اکثر سیاست، ادب، فلم،آرٹ اور انسانی و شہری حقوق ایسے موضوعات پر گرما گرم بحث کیا کرتے تھے۔
خاندان بھر کے لئے البتہٰ شام گزارنے کا ایک بہانہ ہوتا جب کسی شادی یا ولیمے پر جانا ہوتا۔ کابل میں ڈیڑھ سو سے زائد شادی ہال بنے ہوئے تھے۔شادیوں پو خوب خرچ ہوتا۔ خواتین جدید فیشن کے ملبوسات میں سج دھج کر پہنچتیں۔گھنٹوں بیوٹی پارلر پر تیار ہونے میں لگتے۔ شہر بھر میں جگہ جگہ بیوٹی پارلر کھلے ہوئے تھے۔بعض شادیوں میں تو مہمانوں کی فہرست ایک ہزار تک جا پہنچتی۔یہ درست ہے کہ ان شادیوں پر بے جا مصرف ہوتا مگر یہ ایک ایسا موقع بھی ہوتا تھا کہ سب لوگ ڈانس،میوزک اور اچھا کھانا۔۔۔ان سب سے لطف اندوز ہوتے۔گو خواتین اور مرد الگ الگ ہال میں براجمان ہوتے تھے۔
ہوٹل سیرینا میں شادی کا فنکشن رکھنا ایک سٹیٹس سمبل تھا۔ جی ہاں وہی سرینا جو چائے کے کپ کی وجہ سے شہ سرخیوں میں آیا اور بعد ازاں اپنی پانچویں منزل کی وجہ سے۔
سرینا اپنی شادی کی پارٹیوں کی وجہ سے ہی بہت سے خاندانوں کے لئے ایک خوب صورت یاد نہیں ہے۔ یہاں بہت سے کلچرل فنکشن بھی ہوتے۔ این جی اوز کے اجلاس بھی یہاں ہوتے تھے۔ پریس کانفرنس بھی یہیں کی جاتی تھیں۔ کابل اور بعض دیگر شہروں میں خواتین کے لئے جم اور سوئمنگ پول بھی موجود تھے۔ 15 اگست کے بعد سے یہ سب بند پڑے ہیں۔
میری ایک دوست کی بہن کی چند دن پہلے شادی تھی۔ یہ شادی ایک مصیبت بن گئی۔ یہ جاننے کے لئے کہ زندگی کس طرح بدل گئی ہے،اس کے لئے اس شادی کا قصہ ہی کافی ہے۔میری دوست نے مجھے بتایا: ”ان دنوں میں شدید ذہنی دباو کا شکار ہوں۔کبھی کبھی تو سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔کسی دوست سے ملاقات کا نہ ہونا تنہائی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے تک، زندگی اچھی خاصی تھی۔۔۔چاہے بہت اچھی تب بھی نہیں تھی“۔
وہ بات کرتے کرتے رو پڑتی۔ سسکیوں میں بات کرتی۔بڑی مشکل سے اس نے یہ قصہ مجھے سنایا جو چند دن پہلے کا تھا: ”میری بہن کی شادی ہونا تھا۔ جب طالبان نے کابل ہر قبضہ کر لیا تو ہم نے شادی ملتوی کر دی مگر پھر طے پایا کہ شادی کی رسم انجام دے ہی دی جائے۔ لڑکے والوں کا بھی اصرار تھا۔ سیکورٹی بھی دن بہ دن خراب ہو رہی ہے۔ میرے والدین نے بھی سوچا کہ شادی ہو ہی جائے تو بہتر ہے۔لڑکے والے مہندی کی رسم بھی رکھنا چاہتے تھے۔ ہم نے شرط رکھی کہ مہندی کر لیتے ہیں مگر نہ گانا ہو گا نہ ڈانس۔ ہم طالبان سے خوفزدہ تھے۔اب مہندی شروع ہوئی تو کچھ خواتین نے طنبورہ نکال لیا۔کچھ لڑکوں نے کریکر لا دئیے۔کچھ ہی دیر کے بعد طالبان پہنچ گئے۔شکر ہے اس دوران لڑکے والے جا چکے تھے ورنہ اک تماشا لگنا تھا۔طالبان بہت غصے میں تھے۔ کہنے لگے وہ سب گھروں کی تلاشی لیں گے۔میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ وہ کھڑکی کے راستے فرار ہو جائے۔مجھے پتہ تھا وہ بغیر دیکھے سنے اسے گرفتار کریں گے۔میں نے ایسے کتنے ہی قصے سنے ہیں کہ طالبان معمولی باتوں پر شدید مار پیٹ کرتے ہیں۔طالبان ہم کواتین کو شرابی اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہہ رہے تھے۔ میں یہاں دہرا بھی نہیں سکتی۔ میں نے فوراََ کپڑت تبدیل کئے اور سادہ سے کپڑے پہن لئے۔ اس دوران ہمارے پروسیوں نے طالبان کی منت سماجت کی۔انہین ہمارے بارے بتایا کہ یہ اچھے مسلمان ہیں۔ان کا اصرار تھا کہ ہمارا بھائی باہر آئے۔ وہ گھر پر تھا نہیں۔تین گھنٹے بعد یہ مصیبت ٹلی۔ شادی کیا تھی،بس چپ چاپ نکاح کی رسم ادا کی گئی۔ ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہا کہ کہیں طالبان نہ آ جائیں“۔
یہ واقعہ سنا کر وہ پھر رونے لگی۔ آنسو تھمے تو پھر بولی:”افغان لوگوں کا کسی چیز پر کوئی اختیار باقی نہیں رہا۔ ہماری ہر چیز حتیٰ کہ ہماری نجی زندگی اور بیڈ روم بھی طالبان سے محفوظ نہیں۔شادیوں پر طالبان کے حملوں بارے اور بھی رپورٹس سننے کو ملی ہیں۔ بعض خواتین اب بھی جینز پہن کر نکلتی ہیں۔۔۔کہ یہ بھی مزاحمت کی ایک علامت ہے،مگر اکثریت نے برقعہ اوڑھ لیا ہے۔“