تاریخ

بغاوت کے الزامات پڑھ کرہم سب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے: ظفراللہ پوشنی

قیصرعباس

ریاست سے بغاوت کے الزام میں کچھ قیدی اس انتظار میں ہیں کہ ان پر عدالت میں مقدمہ چلانے کے لئے آج قانونی تعزیرات عائد کی جا ئیں گی۔کمرے میں ماحول انتہائی کشیدہ ہے اور قیدیوں کے چہرے سے تشویش کے آثار جھلک رہے ہیں۔ انہیں سنگین الزامات کی ایک طویل فہرست دی جاتی ہے جسے پڑھنے کے بعد صورت حال ڈرامائی طورپر کچھ اس طرح بدل جاتی ہے:

”یہ لمبی چوڑی فہرست دیکھ کر مجھے بے ا ختیارہنسی آگئی۔میں نے ہنسنا شروع کیا تو باقی دوست بھی ہنسنے لگے۔ ہم کوئی دس پندرہ منٹ تک لگاتار اور بلندآواز قہقہے لگاتے رہے۔ ہنسی اتنی بے تحاشا تھی کہ ہم زمین پر لیٹ گئے۔ مرزا صاحب حیران و پریشان کھڑے ہم میں سے ایک ایک کا منہ تک رہے تھے۔ہمارا یہ رد عمل ان کی رائے میں غالبا موزوں نہیں تھا۔ مطلب یہ کہ اتنے بہت سے خوفناک الزامات کی طویل فہرست دیکھ کر بدتمیزی سے قہقہے لگاناآخر کہاں کی شرافت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ برگیڈیر صدیق کے سوا،جو مقدمے کی سنگین نوعیت کو ہم سے بہتر جانتے تھے، باقی تمام دوست طبعاََ کچھ ایسے بے نیازاور رجائی تھے کہ چارج شیٹ پر دفعات کی بھر مار دیکھ کر محظوظ ہوناان کے لئے کوئی ایسی حیرت انگیز بات نہ تھی ( ’زندگی زندہ دلی کا نام ہے‘ ص 93)۔“

یہ قیدی ظفر اللہ پوشنی تھے جنہوں نے حالات کی سنگینی کے باوجود اپنی حسِ مزاح قائم رکھی۔انہیں بعد میں بغاوت کے الزام میں چار سال قید کی سزاسنائی گئی اور قیدکی یہ تمام گھڑیاں انہوں نے ساتھیوں کو لطیفے سناتے، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے گزاریں۔ راولپنڈی سازش کیس میں گرفتارکئے گئے تو وہ پاکستان آرمی کے کپتان تھے اور باقی تمام قیدیوں میں سب سے کم عمر تھے۔ ظفر اللہ پوشنی نے گزشتہ ہفتے 95 برس کی عمر میں زندگی کو خیربادکہا۔

ان کا تعلق امرتسر سے تھا اور وہیں انہوں نے سکول اور کالج کی تعلیم حاصل کی پھر برطانوی فوج میں افسر کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ اس روداد کووہ اس طرح بیان کرتے ہیں:

”دریں اثنا 1944 ء میں یہ بندہ ناچیز بھی 18 برس کی عمر کو پہنچتے ہی فوج میں بطور کیڈٹ شامل ہوگیا اور مارچ 1945ء میں کمیشن حاصل کیا۔ میری پوسٹنگ پنجاب رجمنٹ میں ہوئی لیکن میں نے لیفٹنٹ کرنل فیض احمد فیض کو دوران سروس فوجی وردی میں کبھی نہیں دیکھا۔جب پاکستان وجود میں آیا تو فیض فوج ترک کرکے نئی مملکت کے شعبہ صحافت سے منسلک ہوگئے تھے۔ البتہ میں نے سروس جاری رکھی۔“

اسی دوران ان کی ملاقات جنرل اکبر اور دوسرے ہم خیال ساتھیوں سے بھی ہوئی۔ وہ کٹر کیمونسٹ تو نہیں تھے لیکن سوشلسٹ خیالات کے حامل تھے اور عام لوگوں کی صعوبتوں کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ رہتے۔حکومت وقت کے خلاف سازش کے الزام میں وہ راولپندی سازش کے تحت دھرلئے گئے۔ بغاوت کے جرم میں گرفتار 14 قیدیوں پرلگائی گئی جھوٹی دفعات میں ایک قتل کی دفعہ بھی شامل تھی جس میں موت کی سزا بھی سنائی جاسکتی تھی۔ ان قیدیوں میں جنرل اکبرخان جیسے سینئر اورکیپٹن ظفراللہ جیسے جونئرفوجی افسران کے علاوہ سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض جیسے سیاسی کارکن اور دانشور بھی شامل تھے۔ حکومت کی جانب سے دائر کئے گئے اس مقدمے کی بنیاد جنرل اکبر کے گھر بلایاگیا ایک اجلاس تھا جہاں تختہ الٹنے پر غور تو کیا گیا لیکن اس تجویز کو مسترد کردیا گیا۔ لیکن چند وعدہ معاف گواہوں کی جھوٹی گواہیوں کی بنیاد پر اجلاس میں شامل فوجیوں اور شہریوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ظفراللہ اس اجلاس پرروشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں:

”فرورری 51 19ء میں میری پوسٹنگ سکول آف سگنلز راولپنڈی میں تھی جب اکبر خان نے حکومت بدلنے کے پروگرام کی تکمیل کے لئے (جس کی پلاننگ وہ تقریبا دوبرس سے کررہے تھے) اپنے گھر پر ایک میٹنگ بلائی۔ اسی دوران میرے دوست میجر اسحق محمد ایم سی (مرحوم) نے جو جنرل اکبر کے زیر کمان بریگیڈمیجر رہ چکے تھے، جنرل صاحب سے میرا تعارف کروادیا تھا۔ میں دو ایک بار ان کے دولت خانے پر حاضری بھی دے چکا تھا اور ان کے خیالات سے مستفید بھی ہوچکا تھا۔ چنانچہ 23 فروری 1951ء کو جنرل اکبر خان نے اپنے گھر پر جن فوجی اور شہری لوگوں کو مدعو کیا ان میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔“

حکومت وقت اس مقدمے کواس قد ر اہمیت دے رہی تھی کی ملک کی دستور ساز اسمبلی سے ایک خصوصی ایکٹ منظور کرایا گیا جس کے تحت ان تمام اسیروں پر مقدمہ چلاکر سزائیں دلائی گئیں لیکن ایکٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد سزاوں کو جاری رکھنا ممکن نہ رہا اور اس طرح فیض اور دوسرے قیدیوں کی رہائی ممکن ہوسکی۔دراصل اس پورے واقعے کے پس منظر میں ایک بین الاقوامی سازش کارفرما تھی۔ آزادی کے بعد ہی امریکی اثرو رسوخ پاکستان کے معاملات میں بے حد بڑھ چکاتھا اور اسی اثر کے تحت ملک میں بائیں بازو کی تحریکوں کو قانونی موشگافیوں کے ذریعے جھوٹے مقدمات میں پھنساکر اورظلم وتشدد کے ذریعے ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔یہ جھوٹا مقدمہ بھی بین الاقوامی سرد جنگ کا ایک سیاہ باب ہے۔

ظفراللہ پوشنی سے میری ملاقات 19 جولائی 2011ء کو ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں ہوئی تھی جو مجھے ابھی تک یاد ہے۔ میں اس وقت ٹیکساس کی ایک یونیورسٹی کی انتظامیہ کا حصہ تھا۔ ہوایوں کہ وہ اپنے کچھ عزیزوں سے ملنے ڈیلاس آئے ہوئے تھے اور کچھ احباب نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے اعزاز میں ایک استقبالیے اور مشاعرے کا اہتما م کیا۔میں نے اس موقع پر”ٖفیض احمد ٖفیض اور عصر حاضر کا انقلابی شعور“کے عنوان پر ایک مقالہ بھی پیش کیاتھا۔

مجھے یاد ہے کہ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے ا نہوں نے کہا تھاکہ قانونی طور پر ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ جنرل اکبر کی رہائش گاہ پر حکومت کی تبدیلی پر بحث کی گئی مگر چونکہ عملی طور پر یہ منصوبہ ناقابل عمل تھا، اسے منظور نہیں کیاگیا۔ اس کے برعکس حکومت نے زبر دستی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم لوگوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کا کوئی منصوبہ تیار کیا تھا۔

آزادی کے ابتدائی دور سے عصر حاضر کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اتنا بڑھ گیا ہے کہ باہمی افہام و تفہیم کی جگہ تشدد نے لے لی ہے اور جمہوری روایات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے بزور اپنی بات منوانے کا چلن عام ہوچکاہے۔

تقریب کے بعد ان سے تفصیلی گفتگو بھی ہوئی جس میں انہوں نے اپنے اسیری کے ایام کو یاد کرکے فیض صاحب سے ملاقاتوں کا احوال بھی بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ہم میں سے اکثر حضرات قیدوبند کی سختیوں سے گھبراکر غم وغصے کا اظہار کرتے جب کہ خود فیض صاحب نے کبھی بردباری اور شرافت کا دامن نہیں چھوڑا۔ وہ ہمیشہ دھیمی آوازمیں سب کے غموں کا مداوہ ہی کرتے رہے۔وہ ہمیشہ سب لوگوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

مجھے اس وقت ظفراللہ خود پوشنی صاحب میں بھی فیض صاحب کی شخصیت کا عکس نظر آیا، بات کرنے کاوہی دھیمہ لہجہ اور دوسروں کو بغور سننے کا حوصلہ بھی۔ ہماری میز پران کے ساتھ ایک او ر صاحب بھی نشے میں دھت انا پ شناپ بک رہے تھے مگر اس دوران پوشی صاحب انہیں پوری تندہی سے سنتے رہے۔شاید ان کی صحت اور لمبی عمر کا راز بھی یہی تھا۔عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ان کی صحت قابل رشک تھی اور وہ پورے اہتمام کے ساتھ خوش وخرم زندگی بسر کررہے تھے۔

ان ہی دنوں فیض کے صدسالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں ان کی زندگی اور فن پر ڈاکٹر سید تقی عابدی نے ایک ضخیم کتاب ’فیض فہمی“ شائع کی تھی۔ تصنیف میں پوشنی صاحب کا ایک مضمون بھی شامل تھا جس میں انہوں نے اسیری کے دوران فیض سے ملاقاتوں کاذکر کیا ہے۔ فیض صاحب نے اسیری کے دوران بھی شعر گو ئی جاری رکھی اور دو مجموعے بھی شائع کیے۔ جیل میں ان کی شاعری کے بارے میں ظفر اللہ پوشنی لکھتے ہیں:

”شاعری میں ’آمد‘ کے متعلق بہت کچھ سنا تھا لیکن اس کا عملی مظاہرہ حیدرآباد جیل میں دکھائی دیا۔ جب فیض صاحب تخلیق کے عمل سے گزرتے تو ہمیں فورا پتا چل جاتا کہ غزل یا نظم بن رہی ہے۔ فیض برآمدے یا احاطے میں ٹہلتے نظر آتے، سوچوں میں غرق، کسی سے بات چیت نہیں، پھر اپنی کھولی میں واپس چلے جاتے، میز پر پڑے ہوئے کاغذ پر کچھ لکھتے، پھر برآمدے میں آجاتے، ادھر ادھر پھرتے، دھویں کے کچھ مرغولے چھوڑتے، پھر سگرٹ پھینک دیتے، کھولی میں واپس جاتے، کرسی پر بیٹھتے، ایک نیا سگریٹ سلگا لیتے، پھر سوچنے لگ جاتے۔“

آگے چل کر کہتے ہیں: ”واقعی میں بڑا خوش قسمت تھا کہ ’دست صبا‘ اور ’زندان نامہ‘ کی درجنوں غزلوں اور نظموں کو اسی انداز میں تخلیق ہوتے دیکھا، اور انہیں شاعر کی زبان سے پہلی بار جیل کے برآمدے یا احاطے میں بیٹھ کر سنا۔“

ظفر اللہ پوشنی کی وفات کے بعد ایک پور اعہد اپنی عہد ساز ہستیوں کے ساتھ اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ جب انہیں سازش کیس میں قید کی سزا ملی تووہ ایک نوجوا ن فوجی افسر تھے اور ان کے سامنے ایک شاندار مستقبل تھا۔ وہ چاہتے تو دوسرے وعدہ معاف گواہوں کی طرح حکومت کا ساتھ دے کر اپنا فوجی کیریر محفوظ کرسکتے تھے مگر ایک دیانت دارنظریاتی کارکن ہوتے ہوئے انہوں نے قیدوبند کی صعوبتیں نہ صرف برداشت کیں بلکہ ہنسی خو شی اسیری کے دن بھی پورے کئے۔ اپنی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے تقریبا 20 برس پہلے کہا تھا:

”راولپنڈی سازش کیس کے 15 اسیر پچھلی چاردہائیوں میں ایک ایک کرکے خالق حقیقی سے جاملے ہیں، صرف یہ بندہ ناچیز ہی
باقی رہ گیا ہے۔ اگلی مئی میں میری عمر 76 برس ہوجائیگی اور مجھے ادیبہ میوریل سپارک (Muriel Spark)کے یہ فقرے یاد آرہے ہیں، 70 سال کی عمر کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی جنگ میں شامل ہیں! آپ کے تمام دوست مر چکے ہیں یا مررہے ہیں، اور آپ میدان جنگ میں کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔“

ظفراللہ پوشنی نے زندگی کا میدان جنگ ایک عجیب شان سے سرکیا جس کے ہر معرکے سے وہ کامران و کامیاب گزرے۔ بقو ل شاعر:

ہم بھی اک پھول کھلاتے جائیں
کچھ نئے رنگ سجاتے جائیں

پھول خوشبو سے جداہے پھربھی
پتیاں گھر میں لگاتے جائیں


حوالے

1۔ظفر اللہ پوشنی، ٖفیض اور زنداں (کتاب کا باب) فیض فہمی، تحقیق و تنقید، مدیر ڈاکٹر سید تقی عابدی، ملٹائی میڈیا افیرز، لاہور، 2011۔

2۔ظفراللہ پوشنی، زندگی زندہ دلی کا نام ہے، غالب لائبریری، کراچی، پاکستان،1976۔ریختہ ویب سائٹ:
https://www.rekhta.org/ebooks/zindagi-zindan-dili-ka-naam-hai-zafarullah-poshni-ebooks?lang=ur

3. Qaisar Abbas, Faiz Fehmi: Understanding Faiz with Style, Review by Qaisar Abbas, Pakistaniaat, A Journal of Pakistan Studies, Vol. 5, No. 1 (2013).

4. Zafarullah Poshni, the last survivor of the famous Rawalpindi Conspiracy Case, died on Wednesday, a family member said he was 95. Dawn, October 7,2021.

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔