محمد اکبر نوتیزئی
بلوچستان کے شورش زدہ علاقے آوران سے تعلق رکھنے والے عبدالقدوس بزنجو کو 2018ء میں نیا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا تھا۔ اس وقت بزنجو کی جانب سے پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد کے پس منظر میں نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ستم ظریفی یہ کہ بزنجو نے شطرنج کی یہ بازی تو جیت لی تھی مگر وہ اس کھیل کی الف بے سے بھی واقف نہ تھے اور 13 جنوری سے 7 جون 2018ء تک ہی اس عہدے پر کام کر سکے۔
آج تین سال بعد وہی کھیل پھر دہرایا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ جام کمال خان اسی انداز میں ایوان اقتدارسے باہر کر دئے گئے ہیں اورعبدالقدوس بزنجو ایک بارپھربلا مقابلہ انتخاب جیت کر 29 اکتوبر کو سنگھاسن پر بیٹھ چکے ہیں۔ ایک سینئر وزیر کا کہنا ہے کہ وہ ایک کمزور ترین سیاسی مہرہ ہیں جس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں اور یہی ان کی کامیابی کی اصل وجہ ہے۔
بزنجوکے اقتدارکایہ دوسرا دور 2018ء کی سیاسی غلطیوں کو درست کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ نون کی گھٹتی ہوئی طاقت کو بھانپ کر پیپلزپارٹی نے صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کی۔ آصف زرداری نے اپنے ایک قریبی معاون عبدالقیوم سومرو کو صوبے میں بھیجا لیکن انہیں خالی ہاتھ واپس آناپڑا۔ وجہ یہ تھی کہ راتوں رات بلوچستان عوامی پارٹی بناکر اسے مسنداقتدار سونپنے کی پوری تیاریاں کرلی گئی تھیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے بجائے سیاست دانوں نے نئی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پی ٹی آئی کے اتحاد سے جام کمال کی سرکردگی میں نئی حکومت بنائی گئی تھی۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق اب آصف زرداری ماضی کی غلطی کو درست کرنا چاہتے ہیں اور نواب زہری کو مشورہ دیاگیا ہے کہ بزنجو سے قریب رہیں اس کے باوجود کہ انہوں نے ماضی میں ان کو اقتدار سے باہر کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل قادر بلوچ کے علاوہ دوسرے سیاست دان جو اب پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں، بزنجو کے آس پاس دیکھے جا رہے ہیں۔
یہ دونوں پہلے مسلم لیگ نون کا حصہ تھے لیکن جب پارٹی نے سکیورٹی انتظامیہ کے خلاف مورچے سنبھالے تو انہوں نے اپنی راہیں بدل لیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر انہیں کہا گیا تواگلے انتخابات میں وہ بھی بزنجودھڑے سمیت، پیپلزپارٹی میں شامل بھی ہوسکتے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر محمد عارف کے نزدیک مرکز میں جو پارٹی بھی برسراقتدار آئی، بلوچستان میں بھی وہی حکومت بنا ئے گی مگر چونکہ مرکز میں صوبے کی نشستوں کی تعداد کم ہے، یہاں سیاسی جماعتوں کی توجہ بھی کم رہتی ہے۔
لیکن اکثر اعداد و شمار کے بجائے دیگر ترجیحات بھی اہم ہوتی ہیں۔ بزنجو 2013ء میں صرف 544 ووٹ لے کر صوبائی اسمبلی کے رکن بنے تھے جو تاریخ میں سب سے کم ووٹ حاصل کرنے والے رکن تھے۔ اس کے باوجود وہ 2018ء میں وزیر اعلی بننے سے پہلے جون 2013ء سے دسمبر 2015ء تک بلوچستان اسمبلی کے نائب سپیکر رہے۔
سیاسی مبصر جلال نور زئی کے خیال میں جام کمال کی برطرفی خوش آئند قدم نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تین سال تک وزیر اعلیٰ رہے اور اس دوران ان کے خلاف بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ انہوں نے سینٹ کے چیر مین صادق سنجرانی اور کئی سینٹروں کا 20 بلین روپے کا ایک منصوبہ بھی مسترد کردیاتھا پھر سنجرانی نے ان کے خلاف اسلام آباد میں بھرپور مہم چلائی جس کے نتیجے میں ہی انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ٹیوٹر پر بھی وہ سنجرانی اور پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمان کے خلاف برملا اپنے غصے کا اظہار کر تے رہے ہیں۔
بلوچستان کی سیاست کا ایک نیا ہی انداز ہے۔ یہاں بلوچ قوم پرستوں سمیت تمام سیاست دان حکومت میں حصہ داری کے لئے ایک ہی صفحے پر نظرآتے ہیں۔ اسی لئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر سایہ بلوچ قوم پرست بھی آج کل اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے بزنجو پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ثنااللہ بلوچ اس مقصد کے لئے وزیر اعلیٰ اور سنجرانی دونوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں اوراب تو بلوچستان نیشنل پارٹی کو دو وزارتو ں کی دعوت بھی دے دی گئی ہے۔ اندرونی سطح پر بھی پارٹی کے ارکان اپنے رہنما سرداراختر مینگل پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت میں شامل ہونے کا پروانہ جاری دیں۔
بزنجو کون ہیں؟
بزنجو کا تعلق آوران سے ہے اور وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ اپنے آبائی قصبے جھاؤ میں سکول کی تعلیم مکمل کی اور بلوچستان یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے والد عبدالمجید بزنجوکی طرح وہ بھی تین بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے والد 2002ء میں جنرل مشرف کی آمریت کے دور ان جام محمد یوسف کی حکومت میں شامل تھے جو جام کمال کے والد تھے۔ جان محمد وہ پہلے وزیر اعلیٰ تھے جنہوں نے بلوچستان میں حکومت کی پانچ سالہ مدت مکمل کی۔
بزنجو 2013ء میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ میں شامل ہوئے اور 2018ء میں آوران سے پھر منتخب ہوئے۔ ان کا خاندان عرصے سے آوران سے منتخب ہوتا آ رہا ہے لیکن بد قسمتی سے یہ علاقہ اکیسویں صدی میں بھی، سڑکوں کا ہونا تو دور کی بات، بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رہا ہے اور ا س کے مکین آج بھی کچے مکانوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
بشکریہ: ڈان