فاروق سلہریا
مشرف آ مریت کے آخری آخری سال تھے۔ ملک بھر میں ایک تحریک جاری تھی۔ اس تحریک کا نعرہ بن گیا تھا:”گو مشرف گو مشرف مُک گیا تیرا شو مشرف‘۔
یہ نعرہ در اصل ایک نظم کا پہلا شعر تھا۔نظم کے خالق عارف شاہ پروہنا تھے۔ ان کی یہ نظم ہفت روزہ مزدور جدوجہد میں شائع ہوئی۔ پھر چھوٹے چھوٹے جلسوں میں عارف شاہ پروہنا نے ہی سنائی۔ جس طرح اچانک وہ تحریک ایک عوامی تحریک بن گئی،اسی طرح یہ نعرہ بھی کراچی سے پشاور تک مقبول ہو گیا۔
جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، عوامی نعروں اور گیتوں کے موجد خود گمنام ہو جاتے ہیں، عارف شاہ پروہنا بھی مخصوص ادبی اور سیاسی حلقوں تک ہی محدود رہے۔
دو روز قبل،ٹوبہ ٹیک سنگھ کا یہ انقلابی پنجابی شاعر اپنے آبائی گاوں سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا۔
عارف شاہ پروہنا ایوب آمریت کے خلاف چلنے والی عوامی انقلابی تحریک میں سوشلسٹ خیالات سے متاثر ہوئے۔فوج میں سپاہی بھرتی ہوئے مگر فوج چھوڑ کر ایوب آمریت کے خلاف تحریک میں شامل ہو گئے۔ہمیں اکثر ایک واقعہ سناتے تھے:”میں جب جلسوں میں جانے لگا تو میرے سی او نے مجھے کہا کہ فوجی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ میں نے جواب دیا سر جرنل صاب بھی تو لے رہے ہیں“۔
1970ء کے انتخابات میں انہوں نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم میں حصہ لیا جہاں وہ جلسوں کے دوران اپنی معروف نظم مہنگائی سناتے:
تیرا بیڑا غرق مہنگائیے دس تینوں کسراں مگروں لاہئے
ویکھو لوکو شرم دا گھاٹا بندے سستے مہنگا آٹا
ان کی یہ نظم اس علاقے میں بہت مقبول ہوئی۔ ستر کی دہائی میں ہی روزگار کی تلاش میں کچھ عرصہ خلیج کی خاک بھی چھانی۔ نوئے کی دہائی میں لاہور آ گئے۔ لاہور آنے کی وجہ خالص ادبی تھی۔ لاہور پنجابی ادب کا مرکز تھا۔ بطور شاعر اپنی شناخت بنانے کے لئے لاہور چلے آئے۔ دن بھر محنت مشقت کرتے اور شام پاک ٹی ہاوس۔
پیٹ کی آگ بجھانے اور خاندان کا بوجھ اٹھانے کے لئے پہلے پھل کی ریڑھی لگاتے رہے بعد ازاں لنڈے کے کپڑے بیچنے لگے۔ انہی دنوں کو یاد کرتے ہوئے اکثر مشاعروں میں بھی یہ طربیہ شعر سناتے:
آیا ساں میں گانے ویچن
لگ پیا واں دوانے ویچن
پاک ٹی ہاوس میں ہونے والی کسی تقریب کے دوران ان کی ملاقات فاروق طارق سے ہوئی۔ ان کے پاس رہنے کی جگہ نہیں تھی۔ فاروق طارق صاحب نے ان سے کہا کہ وہ لیبر پارٹی کے دفتر میں رہ سکتے ہیں۔ یوں وہ لیبر پارٹی پاکستان کے مرکزی دفتر، واقع ایبٹ روڈلاہور،
کا ایک لازمی حصہ بن گئے۔
دن کو ریڑھی پر کپڑے بیچتے۔ شام کو کبھی پاک ٹی ہاوس چلے جاتے یا پارٹی دفتر میں ساتھیوں سے گفتگو کرتے۔ رفتہ رفتہ ان کی شاعری ہفت روزہ مزدور جدوجہد میں شائع ہو کر ملک کے کونے کونے میں پہنچنے لگی۔ کراچی اور کوئٹہ سے لے کر پشاور تک جب پارٹی کے ساتھی لاہور آتے تو ان کی ایک بڑی خواہش عارف شاہ پروہنا سے ملاقات ہوتی۔
اسی طرح جب لیبر پارٹی یا بائیں بازو اور ٹریڈ یونینز کے جلسے ہوتے تو عارف شاہ کی نظمیں ماحول کو گرما دیتیں۔ ان جلسوں میں یہ نظم تو وہ ضرور پڑھتے:
میں شاعر مزدور کساناں دا
ایہناں محنت کش انساناں دا
اس نظم کا ختتام یوں ہوتا:
لوکی کہندے میں پنجابی آں
مینوں فخر میں انقلابی آں
میں آدھر کراں سب انساناں دا
میں شاعر مزدور کساناں دا
ایہناں محنت کش انساناں دا
ان کی ایک خوبی تھی کہ حبیب جالب کی طرح حالات حاضرہ پر سیاسی تبصرہ اپنی شاعری کے ذریعے کرتے۔ مثلاََ مشرف دور کی ایک نظم ہے:
مُش تے بُش نے دو بھرا
ایہناں دوواں نوں چُکے خدا
مش تو تنگ اے پاکستان
بش تو تنگ اے کل جہاں
ان کی شاعری کا مجموعہ ’چُپ دے جندرے‘ (خاموشی کے تالے) 2010ء میں جدوجہد پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔
پاک ٹی ہاوس میں بیٹھنے کی وجہ سے ان کو سائیں اختر،بابا نجمی اور قمر یورش جیسے مارکس وادی ادبی شخصیتوں کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا جس نے ان کی شاعری کو ایک نئی جلا بخشی۔ ان کی بعض نظموں کو پنجابی ادب کا سرمایہ کہا جا سکتا ہے۔
بعض اوقات لیبر پارٹی کے ساتھی ان سے موضوع کے حوالے سے نظم لکھنے کی فرمائش کرتے۔ ایسے ہی بات چیت کے دوران ایک دفعہ راقم نے ان سے درخواست کی کہ بابا بلھے شاہ کی آفاقی نظم ’بلہیا کیہہ جاناں میں کون‘ کا ایک جواب لکھنا چاہئے جس میں جدید عہد کے مزدور شعور اور سوشلسٹ آگہی کی بات کی جائے۔ چند روز کے بعد عارف شاہ پروہنا نے ہمیں اپنی لافانی نظم سنا کر حیران اور خوش کر دیا جس کا ایک بند ہے:
میں جاناں میں کون ہاں بلہیا
میں جاناں میں کون
ایسے کر کے آمراں اگے
جھکدی نئیں میری دھون
فلموں میں بھی کچھ گیت لکھے۔ عارف لوہار سے دوستی تھی۔عارف لوہار نے بھی ان کا کلام گایا۔ پاکستان ٹی وی پر بھی آئے۔ کچھ سال پہلے اپنے گاوں واپس چلے گئے۔ اکثر دوستوں سے رخصت لیتے ہوئے کہتے: پروہنا ہن چلیا اے (مہمان اب رخصت ہوتا ہے)۔
دو روز قبل پروہنا چپ چاپ رخصت ہو گیا!
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔