حارث قدیر
وزیر اعظم پاکستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں بھی تحریک انصاف کے وزیر اعظم عبدالقیوم خان نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔
ذمہ دار ذرائع کے مطابق یہ تحریک عدم اعتماد مارچ کے اواخر میں ہی پیش کی جانی تھی، لیکن پاکستان میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران کی وجہ سے پیش نہیں کی جا سکی ہے۔ تاہم تحریک عدم اعتماد کیلئے نہ صرف نمبر پورے کئے جا چکے ہیں، بلکہ ضروری دستاویزات بھی مکمل کی جا چکی ہیں۔ آنے والے چند دنوں میں تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائیگی۔
پاکستان میں تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے سے قبل کی گئی منصوبہ بندی کی وجہ سے اپوزیشن اتحاد کی بجائے یہاں حکمران جماعت کے فارورڈ بلاک، اتحادیوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
تاہم چند حلقوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن بھی تحریک عدم اعتماد میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیرمیں تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اپنے گروپ اور اتحادیوں کے فارورڈ بلاک کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کیلئے سرگرم ہیں۔
اس وقت قانون ساز اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے 32، پیپلز پارٹی کے 12، مسلم لیگ ن کے 7 اراکین، جبکہ مسلم کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلزپارٹی کا ایک ایک رکن اسمبلی ہے۔
حکمران اتحاد کے پاس مجموعی طور پر 34 اراکین کی ایک واضح اکثریت موجود ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پر مبنی اپوزیشن کے پاس کل 19 اراکین اسمبلی ہیں۔
بیرسٹر سلطان محمود کے قریبی ذرائع کے مطابق انہیں 19 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے، پیپلز پارٹی کے 12 اراکین اسمبلی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ نئے وزیر اعظم کیلئے پیپلز پارٹی کے صدر چوہدری محمد یاسین فیورٹ ہیں۔ تاہم کچھ دیگر لوگ بھی اس دوڑ میں موجود ہیں۔
ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق چوہدری محمد یاسین، سردار یعقوب خان، راجہ فیصل ممتاز راٹھور اور چوہدری لطیف اکبر اپنی اپنی لابنگ کرنے میں مصروف ہیں۔ تاہم تحریک انصاف سے بننے والے فارورڈ بلاک کی ترجیحات میں چوہدری محمد یاسین اور سردار یعقوب ہی شامل ہیں۔
مسلم لیگ ن کے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے کی صورت میں پاکستان میں ہونے والی تبدیلی کی طرز پر یہاں بھی قرعہ اپوزیشن لیڈر چوہدری لطیف اکبر کے نام نکل سکتا ہے۔
یاد رہے کہ عبدالقیوم نیازی کی بطور وزیر اعظم نامزدگی نہ صرف خلاف توقع تھی بلکہ پوری اسمبلی میں شاید ہی کوئی ایک رکن قانون ساز اسمبلی موجود تھا جو ان کی بطور وزیراعظم نامزدگی پر خوش ہوا ہو۔ حکومت سازی کے دوران پارٹی صدر (وقت) بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور موجودہ پارٹی صدر تنویر الیاس اپنے اپنے گروپ بنا کر وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل تھے۔ انتخابی مہم بھی اسی گروپ بندی کے تحت ہی کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالقیوم نیازی کو اسلام آباد سے بطور وزیراعظم نامزد کئے جانے کے فوری بعد ہی یہ طے کر لیا گیا تھا کہ ابتدائی 6 ماہ (جو کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کیلئے لازمی مدت ہے) مکمل ہوتے ہی تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائیگی۔
اس خطے میں اقتدار ہمیشہ پاکستان کے وفاق میں برسراقتدار جماعت کے زیر سایہ ہی چلتا رہا ہے۔ ماضی میں ایک ٹرم کے دوران تین وزرا اعظم تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تبدیل کئے جا چکے ہیں۔ تاہم مسلم لیگ ن کے قیام کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کی ہے۔
تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کیلئے رابطہ کاری میں سرگرم ایک سینئررہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو 19 ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت سے بھی اس سلسلہ میں معاملات طے کر لئے گئے ہیں۔ مسلم کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے دو اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔
انکا کہنا تھا کہ پاکستان میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل چوہدری محمد یاسین کو نیا وزیر اعظم بنانے کے حوالے سے معاملات طے کر لئے گئے تھے۔ تاہم اب کچھ تبدیلیوں کے امکانات بھی موجود ہیں۔ سردار یعقوب بھی اس دوڑ میں شامل ہیں، فیصل ممتاز راٹھور بھی شامل ہیں اور اپوزیشن لیڈر چوہدری لطیف اکبر بھی اسی دوڑ میں شامل ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ یہاں عمومی روایت یہی رہی ہے کہ ایک ڈویژن اور قبیلے میں دو بڑے عہدے نہیں دیئے جاتے، اس لئے سردار یعقوب، فیصل راٹھوریا لطیف اکبر میں سے کسی کا انتخاب کیا جانا بھی عین ممکن ہے۔ تاہم یہ آنیوالے ایک یا دو روز میں فائنل ہو جائے گا۔ ایک بات طے ہے کہ عبدالقیوم نیازی یہ عید بطور وزیر اعظم نہیں منا سکیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیرکی اسمبلی میں 12 نشستیں مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کیلئے مختص ہیں۔ یہی 12 اراکین ہمیشہ حکومتوں کی تبدیلی اور قیام میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
عام انتخابات میں بھی ان 12 نشستوں پر پاکستان میں برسراقتدار پارٹی کی کامیابی کا یقین ہی جموں کشمیر کے 33 حلقوں میں بھی اس کے امیدواروں کو کامیاب کروانے کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔ یہی اراکین اسمبلی پھر حکومتیں تبدیل کروانے میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی شہرت بھی رکھتے ہیں۔
حکمران جماعت کے اراکین اسمبلی کا اتنی بڑی تعداد میں بغاوت کیلئے تیار ہونا وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی کی ابتدائی 7 ماہ کی کارکردگی کو بھی واضح کرتا ہے۔ ’بزدار‘ماڈل کی طرزپر وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد وہ اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے میں بھی بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ملازمتوں پر اپنے حلقہ انتخاب سے ہی تقرریاں کروانے، اپنی عزیزوں کے تبادلہ جات اوراہم عہدوں پر براجمان کروانے کے علاوہ وہ ابھی تک کوئی ترقیاتی منصوبہ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات اعلان بھی کیا گیا، سپریم کورٹ کے حکم پر تیاریاں بھی شروع کروائی گئیں۔ تاہم ابھی تک الیکشن کمیشن کو فنڈز مہیا نہیں کئے جا سکے تاکہ وہ انتخابات کے انعقاد کیلئے انتظامات کو حتمی شکل دے سکیں۔ گندم پر سبسڈی کے اعلان کے پس پردہ کروڑوں کی کرپشن کے چرچے بھی زبان زد عام ہیں۔
65 فیصد سے زائد نوجوانوں پر مشتمل آبادی کے حامل اس خطے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیروزگاری کی شرح 14 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ 30 سال سے کم عمر نوجوانوں میں بیروزگاری کی یہ شرح 24 فیصد تک ہے۔ انفراسٹرکچر انتہائی بوسیدہ ہے، زراعت اور صنعت کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری سروسز سیکٹر میں 84 ہزار ملازمین ہیں، جن کی تقرریوں اور تبادلوں پر حکمرانوں کی آپسی بلیک میلنگ چلتی ہے۔ حکمرانوں کی آپسی تضادات بھی سالانہ 28 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کی تقسیم پر ہی مرکوز رہتے ہیں۔ 15 لاکھ کے لگ بھگ لوگ بیرون ملک محنت مزدوری کر رہے ہیں، جن کی اکثریت عرب ملکوں میں انتہائی تلخ حالات میں محنت بیچنے پر مجبور ہے۔ غیر قانونی طریقوں سے یورپ پہنچنے کی خواہش سالانہ کئی نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرنے کا موجب بن رہی ہے۔
ایسے حالات میں اقتدار کی اس رسہ کشی میں اگر عبدالقیوم نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کی امید نئی حکومت سے بھی نہیں لگائی جا سکتی ہے۔ مقامی اسمبلی میں حکومت کسی کی بھی ہو، مالیاتی، آئینی اور سیاسی معاملات میں مرضی و منشا ہمیشہ وزارت امور کشمیر کی ہی چلتی ہے، جسے لینٹ افسران کے ذریعے سے نافذ کیا جاتا ہے۔
نو آبادیاتی طرز کے اس نظام حکومت کے پاس اس خطے کے عوام کو دینے کیلئے سوائے ذلت کے کچھ نہیں ہے۔ مالیاتی، آئینی، سیاسی حقوق اور حق حکمرانی کے حصول کیلئے محنت کشوں اور نوجوانوں کا اپنا سیاسی کردار ناگزیر ہے۔