لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغان صحافیوں اور پاکستانی میڈیا کے مطابق کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی قیادت میں پاکستانی وفد نے پیر کے روز کابل کا دورہ کیا اور مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نمائندوں سے بات چیت کی۔ تاہم ابھی تک کسی بھی طرف سے اس پیش رفت کی سرکاری تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
’ٹربیون‘ کے مطابق رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ پیش رفت افغان طالبان کی طرف سے ریاست پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین کسی قسم کی ڈیل کرنے کیلئے نئے دباؤ کا حصہ تھی۔ افغان صحافی بلال سروری نے ٹویٹ کیا کہ ’کور کمانڈر پشاور فیض حمید اپنے وفد کے ساتھ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیلئے کابل پہنچے تھے۔‘
گروپ اراکین اور کابل میں سرکاری ذرائع نے وائس آف امریکہ کو حقانی نیٹ ورک کی ثالثی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کیلئے جنرل فیض کی کابل میں موجودگی کی تصدیق کی۔ الجزیرہ کے صحافی صدف چوہدری نے بھی جنرل فیض حمید کو کابل کے ایک نجی ہوٹل کی لابی میں دیکھا۔
یاد رہے کہ ماضی قریب میں بطور سربراہ آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ایک ڈیل کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات بھی حالیہ مہینوں میں جاری ہیں۔ تاہم واضح طور پر ان مذاکرات کی تفصیلات تاحال میڈیا تک نہیں پہنچائی جا سکی ہیں۔
طالبان کے کابل کے اقتدار میں واپسی کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رواں سال کے پہلے 5 ماہ میں ہی مختلف دہشتگرد حملوں میں 120 سے زائد پاکستانی سکیورٹی اہلکار اور افسران مارے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے ہی کئے گئے تھے۔
اپریل میں پاکستانی فورسز پر سرحد پار سے دہشتگردوں کے حملوں کے جواب میں پاکستانی فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے مبینہ طور پر سرحد پار گولہ باری بھی کی۔ مذکورہ گولہ باری کے نتیجے میں متعدد سویلین اور بچوں کی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جہاں بمباری کی گئی وہ آئی ڈی پیز کے لئے ہی قائم کئے گئے پناہ گزین کیمپ تھے۔ تاہم حکومت پاکستان کی طرف سے بھی عوامی طور پر ان حملوں کا اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔
’ٹربیون‘ کے سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستانی انتباہ کے بعد طالبان حکومت سرحد پار دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کیلئے متعدد اقدامات اٹھانے پر رضامند ہو گئی اور ابتدائی طور پر کچھ دہشت گردوں کو سرحدی علاقوں سے منتقل کیا گیا ہے۔ تاہم پاکستان ان گروہوں کے خلاف واضح کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اسی دباؤ کی وجہ سے طالبان نے ایک بار پھر پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان امن معاہدے کیلئے ثالثی کا آغاز کیا ہے۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے سرحد پار سے دہشت گردانہ حملوں کے دوران بھی خیال کیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کے خاندانوں کے افراد کو گھر واپس آنے کی اجازت بھی دی گئی اور ان کی بحالی کا کام پہلے سے ہی جاری تھا۔
مذاکرات ہی کے سلسلے میں دہشت گردوں کی رہائی کیلئے بھی حکومت کی طرف سے اقدامات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھی مقامی رہنماؤں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کچھ گرفتار دہشت گردوں کو رہا کیا گیا ہے۔
حکومتی ذرائع کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگ جو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے، ان کی واپسی دہشت گرد تنظیموں کے اندر مصالحت کرنے والے عناصر تک پہنچنے کیلئے دو جہتی حکمت عملی کا حصہ ہے اور پاکستان ٹی ٹی پی، اس کے ساتھیوں اور کٹر عناصر کو تنہا کرنا چاہتا ہے۔