نقطہ نظر

اسلامی سربراہی کانفرنس کی بد حال یادگار اور بھٹو کی وراثت

فاروق سلہریا

کم از کم اسی کی دہائی میں جب راقم اسکول کا طالب علم تھا تو لاہور میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس (1974ء) بارے کتابوں میں پڑھایا جاتا تھا۔ پیپلز پارٹی کے جیالے اس کا ذکر فخر سے کرتے کہ یہ کانفرنس بھٹو کی ’آزادانہ‘ خارجہ پالیسی کی علامت کا ثبوت تھا ’جس سے امریکہ ناراض ہو گیا‘۔ پی ٹی وی پر بھی اس کا ذکر ہوتا گو بھٹو کا نام نہیں لیا جاتا تھا۔

یہ کانفرنس تیسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر غور و فکر اور مسلم دنیا کے مشترکہ لائحہ عمل بنانے کے لئے بلائی گئی تھی۔ بظاہر۔ شاہ ایران نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنا رکھے تھے۔ اس لئے بھٹو حکومت کی لاکھ خوشامد کے باوجود وہ شریک نہیں ہوئے۔ الٹا اس کانفرنس میں قذافی اور یاسر عرفات کو، جو ایران اسرائیل تعلقات کی وجہ سے شاہ کے ناقد تھے، بلانے پر شاہ ایران اس قدر ناراض ہوئے کہ سال بھر بھٹو کو ایران میں خوش آمدید نہیں کہا گیا۔ یاد رہے، ستر کی دہائی میں پاکستان کا اہم ترین مالی و سیاسی سرپرست (بعد از بزرگ امریکہ) سعودی عرب نہیں ایران تھا۔

بھٹو حکومت نے یہ سربراہی کانفرنس دو مقاصد کے لئے کرائی تھی۔ ایک تو اس موقع کا فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش کو تسلیم کیا گیا۔ بھٹو اور شیخ مجیب گلے ملے۔ دوسرا، پاکستان ٹوٹنے کے بعد پاکستان کی معاشی بدحالی کا علاج یہ نکالا گیا کہ بعض نو دولتئے عرب ممالک (سعودی عرب، لیبیا، کویت، متحدہ عرب امارات) کے پاس آنے والے پیٹرو ڈالرز کی مدد سے اس خسارے کا مداوا کیا جائے جو مشرقی پاکستان جیسی مارکیٹ ہاتھ سے نکلنے اور امریکی امداد بند ہونے کی وجہ سے ہوا تھا۔

اس کانفرنس کی یاد میں ایک سمٹ مینار عین پنجاب اسمبلی کے سامنے موجود احاطے میں بنایا گیا جس کا ڈیزائن اسی ترک مہندس(آرکیٹیکٹ)نے تیار کیا جس نے فیصل مسجد کا نمونہ تیار کیا تھا۔ اس احاطے میں موجود سفید چبوترے کے اندر کبھی ملکہ برطانیہ کا مجسمہ ہوتا تھا۔ اس مجسمے کی جگہ قرآن رکھا گیا۔ یہ سمٹ مینار اس چبوترے کے پہلو میں موجود تو ہے مگر شائد ہی کسی کو معلوم ہو کہ اسے سمٹ مینار کہا جاتا ہے۔

مال روڈ کی دوسری جانب ایک اور یادگار تعمیر کی گئی۔ اس یادگار کا حال مندرجہ ذیل تصویر میں واضح ہے:

اس چار دیواری یادگار پر چار زبانوں میں بھٹو کا ایک بیان تحریر تھا۔ یہ بیان اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر کی گئی تقریر سے لیا گیا ایک اقتباس تھا۔ اردو، انگریزی، فارسی اور عربی زبان میں دیواروں پر کندہ یہ بیان اب کسی بھی زبان میں پڑھنا ممکن نہیں۔

جیسا کہ مندرجہ بالا تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے، یادگار کے اوپر ایک مقدس علامت کی شکل میں لاہور کی انتظامیہ نے اس یادگار کا ایک نیا استعمال تلاش کر لیا ہے۔

بھٹو کی تضادات سے بھرپور اندرونی سیاست کی طرح، بھٹو کی خارجہ پالیسی بھی تضادات سے بھرپور تھی۔ مذہب کے سیاسی استعمال و استحصال کے جس دھندے کو بھٹو نے فروغ دیااسے ضیا الحق نے انجام تک پہنچایا۔ گو یہ کام بھٹو سے پہلے والے حکمران بھی کرتے چلے آ رہے تھے مگر فرق یہ ہے کہ بھٹو کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ علاوہ اور چیزوں کے، مذہب کا سیاسی استحصال بھی بھٹو کے گلے کا پھندا بنا۔ پاکستان کے عوام اس کی سزا آج تک بھگت رہے ہیں۔ پہلے ضیا الحق کی شکل میں، اب ضیا باقیات (طالبان، ٹی ایل پی، سپاہ صحابہ، پی ٹی آئی، لشکر طیبہ وغیرہ) کی شکل میں۔

مندرجہ بالا تصویر اسی عمل کی ایک علامت ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔