پاکستان

فوجی بجٹ، آئی ایم ایف اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے

فاروق سلہریا

سیاست معیشت کا عکس ہوتی ہے۔ اس مارکسی کلئے کا بہترین اظہار پاکستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ معاشی بحران نے لولی لنگڑی بے اصول بورژوازی، فوج، عدالت…سب کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔

عدالت کس حد تک تقسیم ہے، اس کا اندازہ تازہ ترین تماشے سے لگایا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے جن پانچ ججوں کو ’بھرتی‘ کرنے کی کوش کی، انہیں کامیابی نہ ملی۔ اب چیف جسٹس نے اعلان کیا ہے کہ مجوزہ اجلاس ہی ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اس سے صرف چند دن قبل، ہم خیال ججوں نے جس طرح فل کورٹ سماعت کی بجائے فوری طور پر پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کا حکم دیا، اس سے ہی واضح ہو گیا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہے۔

ادہر ریاست اور سیاست کا سب سے طاقتور حصہ، یعنی فوج، پہلی بار اس بری طرح تقسیم ہے کہ اس کی مثال شائد ہی پہلے کبھی ملی ہو۔ بظاہر ریٹائرڈ فوجی افسر عمران خان کی حمایت میں جلسے جلوس کرتے نظر آتے ہیں لیکن جس طرح سے آئے روز جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنائے جا رہے ہیں اور ٹرینڈ بنانے والے کی خیر و عافیت دریافت کرنے کے لئے کوئی ویگو ڈالا ارسال نہیں کیا جا رہا، اس بات کا واضح اظہار ہے کہ معاملات گڑ بڑ ہیں۔ ایک وقت جو اختلافات اگلے فوجی سربراہ کے مسئلے پر سامنے آئے تھے، وہ اب مزید گھمبیر ہو چکے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کی حالت یہ ہے کہ ان کی مقبولیت کا سٹاک چند ہفتوں میں کبھی بیرش (Bearish) ہو جاتا ہے تو کبھی بلش (Bullish)۔ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات نے ثابت کر دیا کہ ووٹر کسی سیاسی جماعت یا سیاسی خاندان کے غلام نہیں۔ زر خرید صحافی جو دن رات لوگوں کو بتاتے نہیں تھکتے تھے کہ حمزہ شہباز انتخابی سیاست کا کوئی جینئیس ہے، معلوم نہیں آج کل کہاں ہیں۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے چکر میں تین ماہ سے بھی کم عرصے میں مسلم لیگ نواز صوبے کی مقبول ترین جماعت سے غیر مقبول سیاسی جماعت بن گئی۔

اس سے قبل، پاکستان تحریک انصاف اپنی غیر مقبولیت کی بلندیوں پر تھی۔ اس کا ایک اظہار یہ ہے کہ جو حال پنجاب کے ضمنی انتخابات میں نواز لیگ کا ہوا، وہی حال ہرضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کا ہو رہا تھا۔ بڑی جماعتیں اقتدار سے باہر جانے سے اتنی خوفزدہ نہیں جتنی اقتدار میں آنے سے ہیں۔

اس خوف کی وجہ یہ ہے کہ ہر حکومت کے سر پر آئی ایم ایف کا بھوت منڈلا رہا ہے۔ یہ بھوت اس قدر بھیانک ہے کہ کسی مہم جو کو ٹیلی ویژن اسکرین پر آ کر ”پیارے ہم وطنو…“کہنے کی ہمت بھی نہیں ہو رہی۔

اس سیاسی و معاشی بحران کی بنیادی وجوہات کا مختصر خلاصہ چند روز قبل انہی صفحات پر پیش کیا گیا تھا۔

مندرجہ بالا مضمون کا لب لباب یہ تھا کہ فوجی بجٹ، آئی ایم ایف اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

اس بحران سے نکلنے کا کوئی روایتی سرمایہ دارانہ راستہ موجود نہیں رہا۔ ریڈیکل اقدامات کرنے ہوں گے:

۱۔ عالمی قرضے دینے سے انکار کیا جائے۔

۲۔ فوج کا بجٹ اور جرنیلوں کی مراعات کوکم کیا جائے۔

۳۔امیر طبقے کو ملنے والی 33 ہزار ارب کی سبسڈی ختم کی جائے۔

۴۔ ریاست عوام کے روٹی کپڑے مکان کی ذمہ داری لے اور عوام کے روزگار کو یقینی بنائے۔ نیو لبرل معاشی ایجنڈے نے پاکستان کے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ معیشت کو سوشلسٹ بنیادوں پر منظم کیا جائے۔

مندرجہ بالا اقدامات کوئی مین اسٹریم سیاسی جماعت کرنے پر تیار نہیں۔ اس لئے فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔ اگر وہ سری لنکا کی طرح سڑکوں پر نہ نکلے تو موجودہ حکمران طبقہ پاکستان کو فاقوں سے مار ڈالے گا۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔