پاکستان

سیلاب سے مزید 10 اموات، کل 830 ہلاکتیں

حارث قدیر

پاکستانی شمالی اور جنوبی علاقوں میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 10 افراد ہلاک اور 33 زخمی ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک بچوں اور خواتین سمیت 830 افراد ہلاک اور 1348 زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سرکاری ہیں، آزاد ذرائع کے مطابق ہلاکتوں اور نقصانات کا تخمینہ اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ تاہم ابھی تک بہت سے علاقوں تک رسائی ہی نہیں ہو سکی، جس کی وجہ سے اصل صورتحال کی معلومات حاصل کی جا سکے۔ آزاد ذرائع کے مطابق 1 کروڑ سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں۔

این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق 14 جون سے تاحال مجموعی طور پر 830 افراد سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں، سندھ میں 239، پنجاب میں 151، خیبر پختونخوا میں 168، اسلام آباد میں 1، گلگت بلتستان میں 9، بلوچستان میں 225 اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 37 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 337 مرد، 180 عورتیں اور 313 بچے شامل ہیں۔

اسی عرصہ میں سیلاب اور مون سون بارشوں کے باعث 1348 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ سندھ میں 701، پنجاب میں 300، خیبرپختونخوا میں 228، بلوچستان میں 95، پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 20 اور گلگت بلتستان میں 4 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث ابھی تک 4 لاکھ 13 ہزار 226 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ جن میں سے 1 لاکھ 24 ہزار 842 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے، جبکہ 2 لاکھ 88 ہزار 384 مکانات جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں سب سے زیادہ 3 لاکھ 32 ہزار 857 مکانات کو نقصان پہنچا، پنجاب میں 38 ہزار 887، بلوچستان میں 26 ہزار 567، خیبر پختونخوا میں 14 ہزار 12، گلگت بلتستان میں 510 اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 393 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔

سب سے زیادہ نقصان لائیو اسٹاک کا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر 7 لاکھ 7 ہزار 388 سے زائد مویشی سیلاب کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ 5 لاکھ سے زائدمویشی بلوچستان میں ہلاک ہوئے ہیں۔ پنجاب میں 2 لاکھ 2 ہزار 797، سندھ میں 3150، پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 765 اور خیبر پختونخوا میں 676 مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔

روڈ انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ بلوچستان کو پنجاب اور سندھ سے ملانے والی دو مرکزی شاہراہیں لینڈ سلائیڈنگ اور پل ٹوٹنے کے باعث بند ہو گئی تھیں، جن میں سے کوئٹہ کراچی شاہراہ کو ٹریفک کیلئے بحال کر دیا گیا ہے۔ تاہم ایم 8 شاہراہ ابھی تک بند ہے۔ گلگت بلتستان میں ہسپر ویلی روڈ، شمشال روڈ اور مجاور روڈ لینڈ سلائیڈنگ اور فلش فلڈ کے باعث بند ہو گئی تھیں، جو تاحال بحال نہیں ہو سکی ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 116 اضلاع ملک بھرمیں سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں سب سے زیادہ بلوچستان کے 34 اضلاع، خیبر پختونخوا کے 33، سندھ کے 17، پنجاب کے 16، پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے 10، جبکہ گلگت بلتستان کے 6 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30 لاکھ 7 ہزار 858 افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ میں سب سے زیادہ 19 لاکھ 13 ہزار 986 افراد متاثر ہوئے ہیں، پنجاب میں 6 لاکھ 74 ہزار 512، بلوچستان میں 3 لاکھ 60 ہزار، خیبر پختونخوا میں 50 ہزار، گلگت بلتستان میں 7360 اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 2000 افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔

ملک بھر میں ابھی تک 49 ہزار 395 افراد کو ریسکیو کیا جا سکا ہے۔ 1 لاکھ 61 ہزار 32 افراد مختلف ریلیف کیمپوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ ابھی تک حکومت ملک بھر میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30 لاکھ سے زائد متاثرہ افراد کو 24 ہزار 861 ٹینٹ فراہم کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ یوں متاثرین کی اکثریت کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

سرکاری سطح پر ملک بھر میں سیلاب متاثرین کو 79 ہزار 878 فوڈ پیکیجز مہیا کئے جا سکے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں 66 ہزار 316 فوڈ پیکیجز تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 5 ہزار 528 ٹینٹ اور 1800 شیلٹر کٹس بھی غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے تقسیم کی گئی ہیں۔ یوں ملک بھر میں سیلاب متاثرین بے یار و مدد گار ہیں اور ابھی بھی 90 فیصد سے زائد سیلاب متاثرین امداد کے منتظر ہیں۔

حکومت کی طرف سے فی خاندان 25 ہزار روپے بحالی و آباد کاری کیلئے فوری مدد کا اعلان بھی کیا گیا ہے، تاہم لاکھوں انسان جن کے گھر بار مکمل طور پر برباد ہو چکے ہیں، وہ 25 ہزار روپے سے اس مہنگائی میں محض چند روز کی خوراک بھی مہیا نہیں کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف مون سون کی بارشوں کا سلسلہ بھی تک جاری ہے اور سیلاب کا سلسلہ مزید بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ابھی بھی جو الرٹ جاری کئے گئے ہیں، ان کے مطابق گڈو کے مقام پر دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب موجود ہے۔ دریائے سندھ میں تونسہ کے مقام پر اور دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب موجود ہے۔ کالا باغ، چشمہ اور کوٹری کے مقام پر بھی نچلے درجے کا سیلاب ہے۔

جنوبی پنجاب کے علاقوں ڈی جی خان ڈویژن میں اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ موجود ہے۔ مشرقی بلوچستان کے دریاؤں اور ندی نالوں سے 26 اگست تک یہ سیلابی ریلے ڈی جی خان ڈویژن میں داخل ہوتے رہیں گے۔ اسی عرصہ میں تونسہ میں اونچے درجے کے سیلاب کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ اسی عرصہ میں سندھ کے شہری علاقوں میں بھی سیلاب کا خطرہ موجود ہے۔ دریائے کابل میں بھی 26 اگست سے قبل اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ ہے، جس سے نوشہرہ اور دیگر ملحقہ علاقوں میں سیلاب موجود رہے گا۔

آئندہ چند روز تک مشرقی بلوچستان، ڈی جی خان، ملتان، ڈی آئی خان، بنوں، کوہاٹ، پشاور، سرگودھا ڈویژن کے علاوہ جہلم، چناب، راوی اور ستلج کے علاقوں میں شدید بارشوں کا امکان موجود ہے۔ جس کے بعد سیلاب کی صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔