فاروق سلہریا
پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا میں براجمان تجزیہ نگاروں کے علاوہ بے شمار یو ٹیوبرز طرح طرح کی افواہیں پھیلانے میں مصروف ہیں۔ کوئی مارشل لا کی نوید سنا رہا ہے تو کوئی بتا رہا ہے کہ انتخابات ہوئے تو عمران خان دو تہائی اکثریت لے کر آئیں گے۔ از راہ تفنن کہا جا سکتا ہے: حالات اتنے خراب ہیں کہ فوج مارشل لا بھی نہیں لگا پا رہی۔
یہ جائزہ لینے سے پہلے کہ اگلی حکومت پاکستان تحریک انصاف کیوں نہیں بنا سکے گی، تھوڑا سا ماضی قریب کی بات کرتے ہیں۔
عمران خان کی بطور وزیر اعظم بر طرفی اس وجہ سے ہوئی کہ فوج کی قیادت اگلے فوجی سربراہ کی تقرری کا اختیار عمران خان سے چھین لینا چاہتی تھی۔ اپنی برطرفی کے بعد عمران خان نواز شریف اور بے نظیر کی طرح چپ چاپ گھر جانے کی بجائے فوج کے ساتھ کھلی لڑائی پر اتر آئے۔ ان صفحات میں پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کی وجہ مندرجہ ذیل تھی:
بھٹو اور شریف خاندان موروثی سیاست والی جماعتیں ہیں۔ موروثی سیاست کا تقاضہ ہوتا ہے کہ مقتدرہ قوتوں سے اتنی نہ بگاڑو کہ اگلی نسل کی سیاست بھی ختم ہو جائے۔ پاکستان تحریک انصاف شخصیت پرستی کے گرد قائم ہوئی۔ عمران خان کو پتہ ہے کہ اگر وہ پانچ سات سال اقتدار سے باہر رہے تو ان کی عمر ہی انہیں سیاست سے باہر کر دے گی۔ اس کے علاوہ ان کے سیاسی وارث ان کے بچے نہیں۔ وہ مایوسی، بوکھلاہٹ اور غصے سے سر شار ہر وہ حربہ اختیار کرنے لگے جس کے نتیجے میں وہ اقتدار میں واپسی کا راستہ ہموار کر سکتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج سے براہ راست لڑائی ہو گئی۔ اب ان کا مقابلہ شریف خاندان سے نہیں، فوج سے ہے۔
ادہر، عمران خان سے لڑائی کے دوران، ابتدائی طور پر فوج کے اندر بھی ایک طرح کی تقسیم دکھائی دی لیکن فوج ایک شخصیت نہیں، ڈھانچے کا نام ہے۔ ایک ایسا ڈھانچہ اور ادارہ جس کے پاس ملک کی کسی بھی سیاسی قوت سے زیادہ وسائل ہیں۔ تھوڑا وقت لگا مگر فوج نے اپنی صفیں سیدھی کیں۔ اب فوج جوابی وار کر رہی ہے۔ ابتدائی نا اہلی، آڈیو لیکس، شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں توشہ خانے والی معروف گھڑی کے خریدار کا انٹرویو وغیرہ ابھی ابتدائی اظہار ہیں۔
جو تجزیہ کار یہ بتا رہے تھے کہ عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم بہت طاقتور ہے اور قوم یوتھ کسی صورت عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑتی…وہ سراسر غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ اس کا ابتدائی اظہار وہ ویڈیو ہے جس میں عمران خان اپنے زخموں کی ویڈیو جاری کرانے پر مجبور ہوئے۔ شاہزیب خانزادہ کا پروگرام بھی دو دن سے عمران خان کے گلے پڑا ہوا ہے۔
آنے والے عرصے میں مزید نا اہلیاں ہوں گی۔ پاکستان تحریک انصاف سے نام نہاد الیکٹیبلز علیحدہ ہونے لگیں گے۔ اس کے باوجود ممکن ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کم نہ ہو۔ اس کی اہم ترین وجہ موجودہ حکومت کی نا اہلی اور عوام دشمنی بنے گی۔ مہنگائی سے تنگ شہری بجا طور پر ناراض ہیں اور وہ متبادل کے طور پر، ووٹ کی حد تک، عمران خان کا ساتھ دے سکتے ہیں لیکن پاکستان کی مصیبت یہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے لئے مقبول ہونا کافی نہیں ہوتا۔ 2018ء میں نواز شریف سب سے زیادہ مقبول تھے۔ 1990ء میں بے نظیر بھٹو بہت مقبول تھیں۔ 1990ء کے انتخابات کی دھاندلی تو سپریم کورٹ میں بھی ثابت ہو گئی (گو بیس سال بعد ایسا ہو سکا اور بے نظیر تب تک شہید ہو چکی تھیں)۔ پچھلے عام انتخابات کی دھاندلی شائد ہی کبھی ثابت ہو کہ اب تو کوئی اصغر خان بھی نہیں جو یہ لڑائی لڑے۔
بہ الفاظ دیگر جس طرح عمران خان ’جیتے‘ تھے، ویسے ہی اب کی بار وہ ’ہاریں‘ گے۔ یوں اگلی حکومت پی ٹی آئی کی نہیں بنے گی۔ ممکن ہے پی ڈی ایم کی بھی نہ بنے۔ لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے، ناکام نظام کے منہ پر میک اپ کرنے کے لئے، پی ڈی ایم کی کوئی نئی شکل سامنے آ سکتی ہے۔
ایک اور اہم بات: ماضی میں جسے بھی گھر بھیجا گیا، فوراً اگلی بار اسے حکومت نہیں بنانے دی گئی۔ گو یہ پیٹرن یا رجحان بدل بھی سکتا ہے لیکن یہ اس لئے نہیں بدلے گا کہ عمران خان کی فتح اب فوج کی شکست ہے۔ اگر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئی ایس آئی کے سربراہ نے پریس کانفرنس کر کے اس بات کا اظہار کیا کہ فوج نروس ہے تو وہ اس بات کا بھی اظہار تھا کہ اب کھلی لڑائی ہے۔ یہ خبر کہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف نے بھری محفل میں پی ٹی آئی سینیٹر سے سر عام ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا در اصل ایک ایسی علامت تھی جس میں قوم یوتھ کے بے عقلوں کے لئے بھی نشانیاں ہیں۔
سوشلسٹ موقف کیا ہونا چاہئے
اگر عمران خان کی حکومت ہابرڈ رجیم تھی تو موجودہ سیٹ اپ ہائبرڈ رجیم پلس ہے۔ اگر عمران خان محنت کش طبقے کے دشمن اور نیو لبرل معیشت لاگو کرنے والے سیاستدان تھے تو موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر گامزن ہے۔ اگر عمران خان نے بیرونی قرضوں سے عوام کی کمر توڑ دی تو شہباز شریف بھی کچھ کم نہیں۔ علی وزیر تب بھی جیل میں تھے، اب بھی رہائی ممکن نہیں ہو رہی۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ تب بھی حل نہیں ہو رہا تھا، اب بھی وہیں ہے۔ مہنگائی تب بھی کمر توڑ رہی تھی،اب بھی۔ اب تو برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔
ہم بطور سوشلسٹ کسی دھڑے میں کوئی خوش فہمیاں نہیں رکھتے۔ ہمیں ایک متبادل قیادت فراہم کرنے کا مشکل مگر بنیادی فرض نبھانے کی جدوجہد جاری رکھنی ہو گی۔ ممکن ہے اس میں دیر لگے۔ یہ پیچیدہ عمل ہو گا مگر حل یہی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔