عائشہ صدیقہ
”ٹربیون“ میں شائع ہونے والا ائر وائس مارشل (ریٹائرڈ) ارشد چودہری کا حالیہ مضمون ہم سب کے لئے قابل توجہ ہے۔ ایک سابق فوجی افسر، جو آئی ایس پی آر کا بھی چہیتا ہو، کی جانب سے یہ کھلا اعتراف کہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین سماجی و معاشی فرق واضح ہے اور یہ دلیل کہ بڑا پڑوسی ملک ہندوستان ایک عالمی قوت اور علاقائی طاقت بن چکا ہے…کافی حد تک غیر متوقع تھا۔ دریں اثنا، وزیر اعظم شہباز شریف نے دبئی میں قائم چینل العربیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بہت کچھ سیکھا ہے اور پاکستان بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے۔
نوے کی دہائی سے پاکستان میں موڈ بدل چکا ہے۔ بھارت اہم ضرور ہے لیکن عام عوام میں اس کے خلاف اب کوئی گہری نفرت نہیں پائی جاتی۔ کراچی اور پنجاب کے تاجر اور کاروباری لوگ بھارت کے ساتھ تنازعہ چاہتے ہیں نہ ہی ان کی خواہش ہے کہ کشمیر کو پہلی ترجیح دی جائے۔ نوجوان نسل میں بھی اسی طرح کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں میری پشاور کے طلبہ سے بات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت سے لڑائی ان کے لئے اہم نہیں ہے۔ ارشد چوہدری کے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے ایک دوست سے سوال کیا کہ ایسا مضمون اگر میں نے لکھا ہوتا تو؟ جواب تھا: ”آپ کو یہ سب کہنے کی قیمت ادا کرنا پڑتی لیکن ائر وائس مارشل کا مضمون بدلے ہوئے حالات کا پتہ دیتا ہے۔“
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تبدیلی صرف مضمون شائع ہونے کی حد تک ہی ہے یا حقیقت میں بھی کچھ بدل رہا ہے اور اگر دیگر لوگ اس طرح کے نظریات اپنے مضامین میں بیان کرنا چاہئیں تو ان کو سنسر نہیں کیا جائے گا نہ ہی ان پر غداری کے الزامات لگیں گے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ حامد میر اور جاوید چودہری جیسے معروف صحافیوں نے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ بارے لکھے گئے اپنے مضامین میں دعویٰ کیا تھا کہ جنرل باجوہ ہندوستان کے ساتھ صلح کرنے ہی والے تھے۔ ان کے مطابق طے یہ ہوا تھا کہ دونوں ممالک بیس سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو منجمد کر دیں گے اور دونوں ملکوں کے بیچ باہمی تجارت ہو گی لیکن وزیر اعظم عمران خان رکاوٹ بن گئے۔ یہ سن کر جنرل مشرف یاد آئے۔ وہ بھی اپنے جرنیلوں کو بھارت کے ساتھ امن معاہدے کی میز تک لے گئے لیکن معاہدہ ہو نہیں سکا۔ سابق بھارتی وزیر اعظم واجپائی اور من موہن سنگھ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ بھی امن قائم نہیں کر سکے۔ ان حقائق سے اندازہ ہوتا ہے پاکستان کے اعلیٰ ترین سول و فوجی رہنما فیصلہ کن امن قائم کرنے کے لئے متعلقہ حلقوں میں مطلوبہ اتفاق رائے حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
دو دہائیوں میں چار مواقع
1999ء میں ہونے والے لاہور ڈیکلریشن سے بات شروع کی جائے تو کم از کم تین مزید تاریخی مواقع ایسے تھے کہ جب پاک بھارت امن ایک حقیقت لگ رہا تھا۔ 2004ء تا 2007ء کے عرصے میں۔ پھر 2010ء سے لے کر 2015ء کے دوران۔ اسی طرح 2020ء اور 2021ء کے عرصے میں۔ نواز شریف دو مرتبہ فوج کو قائل کرنے میں ناکام رہے جبکہ جنرل مشرف اور جنرل باجوہ بھی ایسا نہ کر سکے۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی یاداشت میں لکھا ہے کہ جنرل مشرف نے اپنے جرنیلوں کو چار نکاتی منصوبے پر راضی کر لیا تھا مگر ممکن ہے یہ غلط فہمی ہو۔ جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد مجھے سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر کے ساتھ ہونے والی ایک ملاقات یاد ہے۔ ریاض کھوکھر کو جنرل اشفاق پرویز کیانی نے، جو بعد ازاں فوجی سربراہ بنے، تقریر کے لئے جی ایچ کیو مدعو کر رکھا تھا۔ ریاض کھوکھر نے مجھے بتایا کہ حاضرین میں موجود کتنے ہی تھری سٹار جرنیل تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ مشرف سے پوری طرح متفق نہ تھے۔
حامد میر کے ”ٹائمز آف انڈیا“ میں شائع ہونے والے کالم کے مطابق تو جنرل باجوہ نے جب اپریل 2022ء میں اسلام آباد سکیورٹی کانفرنس میں مشہور تقریر کی تو پاکستان بھارت سے امن کے لئے تیار تھا۔ اسٹیبلشمنٹ سے جان پہچان والے بعض سول سوسائٹی کے ارکان نے مجھے 2021ء کے شروع میں بتایا تھا کہ ہندوستان پاکستان اس بات پر تیار تھے کہ دونوں ملک اپنے اپنے زیر انتظام کشمیر پر اپنا اپنا تسلط برقرار رکھیں گے اور کسی تنازعے سے پرہیز کریں گے۔ اگر تو یہ درست ہے تو پھر اس بات کی وضاحت کیسے کی جائے کہ عمران خان کی کابینہ میں شامل بعض وزیر…شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، یا بعض دیگر ارکان جو ”ڈیپ اسٹیٹ“ سے تعلقات کے لئے جانے جاتے ہیں…عمران خان کے اس فیصلے کے خلاف تھے کہ بعض ضروری اشیائے خورد و نوش بھارت سے درآمد کی جائیں۔ یہ مخالفت بلا وجہ تھی نہ ہی عمران خان جی ایچ کیو کی مرضی کے خلاف جا سکتے تھے۔
یہ تضادات در اصل اسٹیبلشمنٹ میں دراڑ کی نشاندہی کر رہے تھے۔ اس اندرونی اختلاف سے مراد محض جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے مابین اختلافات نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کی فوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ متحدہ عرب امارات میں خفیہ طور پر بھارت کے قومی مشیر برائے سلامتی کے ساتھ مل کر مذاکرات کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں برطانوی اور فرانسیسی سفارتکار یا انٹیلی جنس اہل کار (یا دونوں) معاونت فراہم کر رہے تھے۔ ان دنوں اسٹیبلشمنٹ میں دو طرح کی تقسیم ممکن ہے۔ ایک تقسیم تو شائد تھی جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے مابین۔ دوسری، مختلف خفیہ اداروں کے اہل کاروں کے مابین جو دونوں جرنیلوں کے علاوہ عمران خان کو یہ باور کرا رہے ہوں گے کہ بھارت کے ساتھ امن کی سیاسی قیمت کافی بڑی ہو سکتی ہے۔
اتفاق رائے کیوں پیدا نہیں ہو سکا
پاکستانی تناظر سے دیکھا جائے تو اہم ترین مسئلہ ہے فیصلہ سازی۔ طاقتور ترین لوگ اس بابت کوئی اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے کہ امن ہونا چاہئے یا نہیں یا یہ کہ بھارت کے ساتھ ممکنہ امن کے خدوخال کیا ہوں گے؟ اہم کھلاڑی علاقائی امن کا تو سوچتے ہیں مگر اس کی تفصیلات میں نہیں جاتے یا ایسے متعلقہ حلقوں کو فیصلہ سازی میں شامل نہیں کرتے جن کا موقف مختلف ہوتا ہے۔ پاکستان میں مکالمے کی بجائے اختلافی نقطہ نظر کا گلا دبا دیا جاتا ہے۔
کشمیر حکومت سے تعلق رکھنے والے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ 2020-21ء کے عرصے میں ان سے اگر کوئی گفت و شنید ہوئی تو وہ تھی گلگت بلتستان کو صوبہ قرار دینے بارے جومقامی لوگوں کا بھی مطالبہ تھا اور چین کا بھی۔ ان ذرائع کے مطابق آئی ایس آئی بھی اس عمل میں شریک تھی۔ یہ ایک اہم سوال تھا کیونکہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا مطلب تھا کہ کشمیر کو بھی صوبہ بنا دیا جائے۔ گو آئی ایس آئی اس فیصلے میں شریک تھی لیکن بعض سیاسی جماعتیں اس فیصلے میں کوئی دانشمندی نہیں دیکھ رہی تھیں یوں اس فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ ادہرگلگت بلتستان کی اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ اس خطے کو صوبہ بنایا جائے۔ تب تک یہ معاملہ دم توڑ چکا تھا جبکہ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے اس بات کے قائل تھے کہ اس فیصلے سے بھارت کو فائدہ ہو گا۔
بھارت کے ساتھ امن بارے اتفاق رائے تب تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک متعلقہ عمل نہ شروع کیا جائے۔ یہ غلطی سول رہنما بھی دہراتے آئے ہیں اور فوجی بھی۔ ریاست اندر سے سول ملٹری اور نظریاتی بنیادوں پر منقسم ہے۔ اوپر بیٹھے لوگ ان دونوں مسائل پر توجہ نہیں دیتے اور اپنی ذات کو بڑا کرنے کے لئے امن قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مطمع نظر امن نہیں، دشمنی ہے
نواز شریف دو مرتبہ ایسے مقام پر تھے کہ ایک بڑی تبدیلی کا عمل ان کی زیر قیادت تکمیل کو پہنچتا۔ پہلی بار، جب لاہور ڈیکلریشن جاری ہوا۔ دوبارہ، جب 2015ء میں انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خوش آمدید کہا۔ جب مودی کابل سے لاہور پہنچے تو پاکستانی جرنیل بھارت کے ساتھ تجارت بارے غور کر رہے تھے مگر ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ بھارت کے ساتھ تجارت ایک ایسا موضوع تھا جس پر مشرف دور سے غور ہو رہا تھا۔ جنرل کیانی نے اس بارے سوچ بچار جاری رکھی۔ 2010ء تا 2015ء کے دوران بے شمار ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات ہوئے اور بحثیں ہوئیں، جن کا مقصد تھا کہ فوج اور آئی ایس آئی کی معاونت سے حکومت میں شامل سویلین بھارت کے ساتھ تجارت کی بات پر از سر نو غور کریں۔ جرنیلوں نے بات چیت کی تو مخالفت نہیں کی مگر وہ ابھی انتظار کے موڈ میں تھے۔ جنرل کیانی نے تو نواز حکومت کو تجارت بارے غور کرنے کا کہالیکن اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے مجھے بتایا تھا کہ حکومت کو جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ مودی کے دورے سے سب اتھل پتھل ہو گیا۔
اس عمل میں شریک بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی کے ساتھ نواز شریف کی اکیلے ملاقات اور اسٹیبلشمنٹ کو شامل نہ کرنے کی وجہ سے اتفاق رائے کا عمل آگے نہ بڑھ سکا۔ نواز شریف کی کوشش تھی کہ مودی کے ساتھ بھی تنہائی میں ملاقات ہو اور بھارتی کاروباری شخصیت متل کے ساتھ بھی اکیلے ملاقات کی جائے۔ کشمیر بارے فوج کے جامد نقطہ نظر کے باوجود، یہ موقف کسی حد تک درست ہے کہ فوج اس عمل کی مخالفت نہ کرتی اگر اسے شامل رکھا جاتا۔
اس بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ جنرل باجوہ امن کے لئے درکار ضروری عمل سے باخبر تھے یا ان کی خواہش صرف یہ تھی کہ تاریخ میں ان کا نام زندہ رہے۔ ارشد چودہری کا مضمون پڑھیں تو لگتا ہے کہ اس کا مقصد سرحد پار لوگوں کو خوش کرنا تھا کیونکہ اس میں مودی کی تعریفوں کے پل باندھے گئے ہیں۔ ادہر، جنرل باجوہ کے آئی ایس پی آر کی کوشش تھی کہ مودی کو ”گجرات کا قصاب“ بنا کر پیش کیا جائے۔ 2022ء میں بننے والی ویب سیریز ”سیوک: دی کنفیشنز“ ایک نجی ادارے نے بنائی۔ اسے آئی ایس پی آر کا تعاون بھی حاصل تھا۔ اس سیریز میں تاریخ اور سیاست کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اداکار ہندوستان میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہندتوا پر تنقید کی گئی ہے۔ یہ وہی باتیں ہیں جو عمران خان کی حکومت کیا کرتی تھی۔ ذرائع کے مطابق جنرل باجوہ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اس سیریز کو ریلیز کرانا چاہتے تھے۔
یہ تضاد اس بات کی علامت ہے کہ جنرل باجوہ شدید تذبذب کا شکار تھے۔ اگر اس قدر کنفیوژن موجود تھی تو جنرل باجوہ دانشور اور طاقتور ایلیٹ کو کس طرح قائل کر سکتے تھے کہ بھارت کے ساتھ تنازعات کو منجمد کرتے ہوئے امن قائم کر لیا جائے۔ یاد رہے چند دن پہلے ہی وہ کراچی میں ہونے والی ”انٹرنیشنل افیئرز“ کانفرنس میں شرکا کشمیر کے سوال پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے پائے گئے۔ گویا موجودہ طریقہ کار کا مقصد دشمنی پالنا ہے نہ کہ بھارت کے ساتھ امن قائم کرنا۔
یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں دائیں ہاتھ کو پتہ نہیں ہوتا کہ بایاں ہاتھ کیا کر رہا ہے۔ کئی دھڑے ہیں جو ایک دوسرے سے متفق نہیں جب کہ بعض افراد ایک ہی وقت میں کئی طرح کے کھیل رچا رہے ہوتے ہیں۔ اگر شہباز شریف اور جرنیل بھارت کے ساتھ امن میں سنجیدہ ہیں تو پہلے مناسب عمل شروع کیا جائے۔ اندرون خانہ معاملات ٹھیک کئے جائیں تا کہ مستقبل میں کسی نئے سرپرائز سے بچا جا سکے۔