اکبر زیدی
ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے: ایک ادارہ جسے پوری دنیا درجنوں ممالک میں عوام دشمنی، ایلیٹ ازم، غربت میں اضافے، پس ماندگی اور مصائب کا ذمہ دار قرار دیتی ہے…اسے پاکستان کا واحد نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ اس ملک کے حکمران اسی معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں جو لگ بھگ ایک سال سے التوا کا شکار تھا۔
اخبار میں شائع ہونے والے ہر مضمون، ٹیلی ویژن پر ہونے والے ہر مذاکرے اور بحث میں ایک ہی منتر دہرایا جا رہا ہے کہ ’اور کوئی راستہ نہیں بچا‘۔ ہر صاحب الرائے کی نظر میں دانشمندی یہی ہے۔ اس دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ گئے، اگر ہم نے ’اصلاحات‘ نہ کیں، تو ’ہم‘ دیوالیہ ہو جائیں گے،کوئی ہماری مدد نہیں کرے گا۔ یہ نعرے روز لگائے جا رہے ہیں۔ ’مالیاتی تباہی‘ اور ’اقتصادی قیامت‘ کی دہائی دی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ’ہم‘ معاشی ’تباہی کے دہانے‘ پر کھڑے ہیں۔ صرف آئی ایم ایف ہی’ہمیں بچا سکتا ہے‘…وغیرہ وغیرہ۔
ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بتا رہے ہیں کہ اگر ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط پر سر تسلیم خم کر دیا تو افراطِ زر کی شرح 25 فیصد سے بڑھ کر 35 فیصد ہو جائے گی، ڈالر کی قیمت لگ بھگ 300 روپے تک چلی جائے گی، جو چند ماہ قبل 200 روپے تھی۔ بجلی اور گیس، اگر ملتے رہے،تو کئی گنا مہنگے ہو جائیں گے۔ اسی طرح پیٹرول اور دیگر اشیا جن پر معیشت کا انحصار ہے، بہت مہنگی ہو جائیں گی۔ درآمدات، جو ہم پر حکومت کرنے والوں کے وجود کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہیں، مزید مہنگی ہو جائیں گی۔
اطلاعات ہیں کہ گذشتہ چند مہینوں میں کہ جب اقتصادی زبوں حالی عروج کی جانب گامزن تھی اور ڈالر ناپید تھا، 2,200 لگژری گاڑیاں درآمد کی گئیں۔ دوسری جانب حالت یہ ہے کہ ادویات اور دیگر ضروری اشیا اور خام مال مارکیٹ سے غائب ہیں۔
ان سب باتوں کو دہرانے والے تجزیہ کار ہمیں مزید بتاتے ہیں کہ اگر ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط مانیں تو حالات اور بھی خراب ہو جائیں گے اور اگر نہ مانیں تو دیوالیہ ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب یا تو آئی ایم ایف کی بات ماننا ہو گی یا دیوالیہ ہونا ہو گا۔ ایک طرف 35 فیصد مہنگائی ہے تو دوسری طرف 70 فیصد۔ بار بار بتایا جاتا ہے کہ پاکستان سری لکا بن جائے گا جو ان کے خیال میں کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
معاشی تباہی یا اقتصادی قیامت کا مطلب مختلف طبقوں کے لئے مختلف ہے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ، جس میں کسی نہ کسی صورت سویلین بھی شامل ہیں اور فوجی بھی، کے لئے تو ہمیشہ آئی ایم ایف موجود ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف ان کا نجات دہندہ ہے۔
یہ اشرافیہ نہ تو معاشی اصلاحات کرنا چاہتی ہے نہ ہی کوئی ریڈیکل اصلاحات کر سکتی ہے۔ سالہاسال سے بلکہ کئی دہائیوں سے ایسی کوئی کوشش کی ہی نہیں گئی۔ لوٹ مار (جسے شائستہ زبان میں ’رینٹ سیکنگ‘ [Rent Seeking] بھی کہا جاتا ہے) کے ذریعے یہ اشرافیہ معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا تی ہے۔ جب لوٹ مار ممکن نہیں رہتی تو آئی ایم ایف اس اشرافیہ کو بچانے کے لئے آن پہنچتا ہے۔
راقم پہلے بھی یہ دلیل دے چکا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں جو تباہی اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ان کا ذمہ دار آئی ایم ایف نہیں۔ اس کی ذمہ داری ان حکمرانوں پر ہیں جوسلیکٹ یا الیکٹ ہو کر آتے ہیں مگر جن کے نام پر حکومت میں آتے ہیں، ان کے مفاد کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔ آئی ایم ایف کسی بیرونی حملہ آور کی طرح نہیں آتا۔ معیشت تباہ کرنے کے بعد حکمران اشرافیہ چپ چاپ آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔
آئی ایم ایف وہ طریقہ کار ہے جس کی مدد سے بحران کا شکار اشرافیہ کی جان خلاصی کرائی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کڑی ہوں یا نرم، اشرافیہ ہمیشہ آئی ایم ایف کا خیر مقدم کرتی ہے۔ مزید براں، یہ احمقانہ اور اور سراسر غلط مفروضہ پیش کیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دو، آئی ایم ایف کو فیصلے کرنے دو، معاشی پالیسی بنانے دو، اس کے نتیجے میں دیگر ممالک بھی پاکستان کو قرضے دیں گے اور سرمایہ کاری کریں گے۔ یوں سرمایہ آتا رہے گا۔
’قوم‘ اور ’ملک‘ یا ’ہماری‘معیشت کی بات کی جاتی ہے جسے آئی ایم ایف بچائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ’ہماری‘ معیشت نام کی کوئی چیز نہیں۔ نہ ہی ’ہم‘ نام کی کوئی مشترکہ چیزہے۔ لوگ کئی طرح کے طبقوں اور معاشی گروہوں میں بٹے ہوتے ہیں۔ کوئی معاشی پالیسی یا کوئی بھی پالیسی سب لوگوں کو ایک طرح سے متاثر نہیں کرتی۔ ہر ملک اور معاشرے میں سیاسی، معاشی اور سماجی اونچ نیچ اور طبقے ہوتے ہیں۔ کوئی سیاسی، معاشی یا سماجی عمل (یا بے عملی) مختلف گروہوں کے لئے مختلف اثرات مرتب کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر، پاکستان اس وقت بلا شبہ معاشی بحران کا شکار ہے مگر اس بحران کا اثر مختلف لسانی گروہوں، جینڈرز اور طبقوں پر مختلف انداز میں پڑ رہا ہے۔ معاشی تباہی یا اقتصادی قیامت کا مطلب مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہے۔
اس موقع پر آئی ایم ایف نمودار ہوتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ، معیشت اور سیاسی نظام جہاں اونچ نیچ ہے وہاں آئی ایم ایف کی لاگو کی گئی شرائط کا اثر مختلف گروہوں پر مختلف ہوتا ہے۔ مہنگائی 35 فیصد بڑھے یا 70 فیصد، غریبوں کے لئے دونوں صورتوں میں اس کا بوجھ نا قابل برداشت ہے۔ افراط زر، بچت، مالی نظم و ضبط اور اس طرح کے تمام معاشی عناصر اور معاشی منصوبہ بندیاں غریب اور امیر کو مختلف طرح سے متاثر کرتی ہیں۔ لہٰذا ’ہماری معیشت‘ اور ’ہمارا ملک‘ یا ’ہماری قو‘ نام کی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔
جب معاشی’ایڈجسٹ منٹ‘ کی جائے گی تو کسی حد تک اشرافیہ کو بھی بوجھ اٹھانا ہو گا لیکن جب معیشت بحران سے نکل جائے گی تو فائدہ اشرافیہ کو ہی ہو گا۔ ڈالر آنے سے، قیمتوں میں اضافے سے، ’مارکیٹ کے طے کردہ‘ ڈالر ریٹ…یہ سب ہماری اشرافیہ کے لئے ایک جھوٹی امید بن کر نمودار ہو ں گے گو وہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بارے شکایت کرتے رہیں گے۔ سٹرکچرل اصلاحات جس کے نتیجے میں طاقت اور دولت کی اس طرح سے تقسیم ہو کہ طبقاتی، جینڈر اور علاقائی فرق میں کمی آئے، کبھی بھی ایجنڈے کا حصہ نہیں رہا۔
آئی ایم ایف ’ہمیں‘ اور ’ہمارے ملک‘ کو بچانے نہیں آ رہا۔ وہ ’ان‘ کا اور اس کے ’اپنوں‘ کاملک بچانے آ رہا ہے۔
بشکریہ: ڈان۔ انگریزی سے ترجمہ: اید ایس