پاکستان

مذہبی جنون: دوست ممالک بھی پاکستان سے بیزار

پرویز امیر علی ہود بھائی

سی پیک اور قومی مفاد کے پیش نظر پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندے سب سے زیادہ مراعات یافتہ غیر ملکی ہیں اور ان کی حفاظت پر بھی سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ پولیس کے حفاظتی دستوں کے علاوہ فوج کے خصوصی دستے ان کی حفاظت پر معمور ہیں۔ چینی شہریوں کو، خواہ وہ اسلام آباد اور کراچی میں ہوں یا بلوچستان کے کسی علاقے میں، یہ مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ وہ مقامی آبادی سے زیادہ رابطہ نہ رکھیں اور خود کو نمایاں نہ کریں۔

ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود داسو پراجیکٹ کی سائٹ پر جو تازہ واقعہ پیش آیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ مذہبی جنونی جتھوں سے چین کے شہری بھی اس ملک میں محفوظ نہیں اور اگر وہ بھی نہیں تو آخر کون محفوظ ہو سکتا ہے؟

داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر اس وقت کام روکنا پڑا جب ایک چینی سپر وائزر نے یہ اعتراض کیا کہ مزدور نماز کے نام پر بہت طویل وقفہ کر رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کی نظر میں یہ توہین مذہب کے مترادف تھا۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ چینی شہری کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر ایبٹ آباد کی ایک جیل میں پہنچایا گیا۔ یہ شخص خوش قسمت تھا ورنہ سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں مینیجر کے فرائض ادا کرنے والا سری لیکن شہری پریونتھا کمارا کو تو توہین کے الزام میں فیکٹری مزدوروں نے زندہ جلا دیا تھا۔

افغانستان کو چھوڑیں، ایسا مذہبی جنون کسی دوسرے مسلم اکثریتی ملک میں نظر نہیں آتا۔ نہ ہی کسی دوسرے مسلم اکثریتی ملک میں توہینِ مذہب کی روک تھام ایک قومی مشغلہ ہے۔ کوہ پیمائی کے جنون میں مبتلا گوروں کے علاوہ کون ہے جو اُس ملک کا رخ کرے گا جہاں معمولی سی بات پر لوگ آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔

دیگر مسلم ممالک میں ہر مذہب اور ہر ملک کے سیاحوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ مراکش کے بازار ہوں یا مصر کے…امریکی، یورپی، روسی اور اسرائیلی شہری جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ انڈونیشیا اور ملائشیا میں ہر جانب آسٹریلیا کے سیاح دکھائی دیتے ہیں۔ گو متحدہ عرب امارات میں سرکاری طور پر شریعت لاگو ہے مگر سماجی اقدار ایسی ہیں کہ دنیا بھر سے سیاح دبئی میں بنے حیرت انگیز عجوبوں سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔

جذبہ ایمانی سے سرشار، آگ بگولہ ہجوم پاکستان میں معمول کی بات بن چکے ہیں مگر دیگر مسلم ممالک میں ایسے ہجوم کم ہی پائے جاتے ہوں گے۔

پاکستان تھوڑا مختلف ہے۔ غیر ملکی…وہ سفید فام ہوں یا چینی و افریقی…خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد تقریبا صفر کے برابر ہے۔ کثیر سرمائے سے تعمیر ہونے والے پاکستانی ائر پورٹ معاشی بوجھ کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ائر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ انٹرنیشنل پروازیں دو چار ہی آتی ہیں۔ ان پر بھی یا تو بیرون ِملک کام کرنے والے مزدور سوار ہوتے ہیں یا پاکستانی تارکین وطن۔

پاکستان کو خطر ناک ملک تصور کرتے ہوئے چند روز پہلے سویڈن نے اپنا سفارت خانہ غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا ہے۔ اس سفارت خانے کے قریب ہی واقع ڈنمارک کے سفارت خانے کو 2008ء میں کار بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

ہماری کچھ دیگر خصوصیات بھی ہیں جو باقی مسلم اکثریتی ممالک میں تقریبا ناپید ہیں۔ یادش بخیر! پاکستان میں چھپے ہوئے اسامہ بن لادن کو اس ملک میں زبردست مقبولیت حاصل تھی۔ 2006ء میں پئیو گلوبل سروے کے مطابق، 2005ء میں ایسے پاکستانیوں کی تعداد 51 فیصد تھی جو بن لادن کو عالمی رہنما کے طور پر دیکھتے تھے۔ 2003ء میں ایسے افراد کی تعداد 45 فیصد تھی۔ اس کے مقابلے پر مراکش، ترکی اور لبنان میں اسامہ بن لادن کی مقبولیت اسی عرصے میں 20 فیصد کم ہوئی تھی۔

دیگر مسلم ممالک کی نسبت پاکستان اس قدر مختلف و منفرد کیوں ہے؟ میری نظر میں اس کی تین وجوہات ہیں۔

اؤل، جن کے ہاتھ میں پاکستان کی باگ ڈور ہے ان کا خیال ہے کہ پاکستان کو مذہب کے نام پر ہی متحد رکھا جا سکتا ہے۔ اس لئے اس کا ہر ممکن استعمال ہوتا ہے اور اس کا ایک اہم ذریعہ تعلیم ہے۔ گو 1971ء میں یہ ثابت ہو گیا تھا کہ مذہب کی گوند سے ملک کو دیرپا بنیاد پر نہیں جوڑا جا سکتا مگر حکمران طبقے نے اس کے بالکل بر عکس نتائج اخذ کئے۔ جنرل ضیا کا (1981ء میں) کہنا تھا: ”اگر یہودیت کو اسرائیل سے نکال دیا جائے تو اسرائیل ریت کے گھروندے کی طرح گر جائے گا۔ پاکستان میں مذہب کی جگہ سیکولرزم لائیں گے تو یہ بھی ٹوٹ جائے گا“۔

باقی مسلم ممالک ایسے کسی خدشے سے دو چار نہیں۔ ترکی؟ مصر؟ ایران؟ انڈونیشیا؟ مراکش؟ تاریخی طور پر تشکیل پانے والی یہ قومی ریاستیں اس خوف کا شکار نہیں کہ ان کا وجود خطرے میں ہے۔ سو مذہب ان کے ہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے قومی بیانئے میں ملک ٹوٹنے کی حشر ناک پیش گوئیاں نہیں کی جاتیں۔

دوم، اَسی کی دہائی میں جہاد کشمیر نے ملا ملٹری اتحاد کو جنم دیا۔ نام نہاد ملا ملٹری اتحاد نے ایسے مدارس کو جنم دیا جو جہادکی فیکٹریاں بن گئے۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ مدرسے بھی فوج کے قابو میں نہ رہے۔ 2007ء میں لال مسجد میں ہونے والی سرکشی نے اسلام آباد کو محاذ ِجنگ بنا دیا تھا۔ درجنوں افراد مارے گئے تھے۔ لال مسجد آپریشن نے ثابت کر دیا تھا کہ مذہبی جنونی فرینکنسٹائن کے سامنے ریاست بے بس ہے۔

یہ لاچارگی آج منہ چڑا رہی ہے۔ اسلام آباد ایسے سکیورٹی زدہ دارلحکومت میں بھی، ایک اندازے کے مطابق، ہر تین میں سے دو مساجد و مدارس ناجائز تجاوزات کے زمرے میں آتے ہیں۔ شہری انتظامیہ میں ان ناجائز تجاوزات کو گرانے کی ہمت تک نہیں۔ حکومت نے کوشش کی تھی کہ اسلام آباد میں ایک ہی وقت پر نماز ہو مگر اس حکم پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ مدرسوں میں اصلاحت کا عمل کب کا دفن ہو چکا۔ الٹا یکساں قومی نصاب لاگو کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں سکول بھی مدارس میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

اس بے بسی کاموازنہ ذرا سعودی عرب، مصر، ایران یا دیگر مسلم ممالک سے کیجئے۔ ان ریاستوں میں اس بات کو سختی سے یقینی بنایا جاتا ہے کہ مسجد کی تعمیر کے لئے جگہ کا تعین ریاست کرے گی۔ مسجد کا ڈیزائن اور طرز تعمیر، جس میں جمالیات کا عنصر ہونا لازمی ہے، تک ریاست کی منطوری کے مرہون منت ہیں۔ جمعے کا خطبہ بھی منظور شدہ ہوتا ہے تا کہ دوسرے فرقوں کے خلاف اشتعال انگیزی نہ کی جا سکے۔ سو نہ تو وہاں کسی مشعل خان کو کوئی ہجوم لنچ کرتا ہے نہ کسی سری لنکن کو جلایا جاتا ہے۔

سوم، مذہبی ریاست (ضیا الحق کے نظام مصطفےٰ اور عمران خان کی ریاست مدینہ کی شکل میں) کا خواب پاکستان میں جاگتی آنکھوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان نعروں سے مفاد پرست سیاستدان کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ بات سمجھنا مشکل نہیں۔ عدم مساوات، بدعنوانی اور طبقاتی تفریق کے مارے اس سماج میں لوگ ایک ایسے سہانے ماضی کی تلاش میں ہیں جب دنیا کسی جنت سے کم نہ تھی۔

ذرا غور کیجئے! سعودی عرب، مصر، مراکش یا ترکی کے مطلق العنان حکمران کسی سہانے ماضی کے قصے نہیں بیچ رہے۔ اس کے برعکس، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے سخت گیر سعودی عرب کی کایا پلٹ شروع کر دی ہے تا کہ شہریوں کوچندشخصی آزادیاں مل سکیں اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا رخ سعودی عرب کی جانب ہو سکے۔ ممکن ہے رجب طیب ادروغان کی ذاتی خواہش ہو کہ وہ خلافت عثانیہ پھر سے بحال ہو جائے جسے کمال اتاترک نے 1924ء میں ختم کر دیا تھا مگر ترک شہریوں کا صرف 8 فیصد خلافت عثمانیہ کا حامی ہے۔

استحکام اور خوشحالی کے راستے پر چلنے کے لئے پاکستان کو ایک معمول کا ملک بننا ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں کے متفرق شہری حلقوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہو اور ایسا رضا کارانہ طور پر ضرورتوں کی بنیاد پر کیا جائے نہ کہ ٹھونسے گئے مذہبی نظریات کی بنیاد پر۔ ریاستی اداروں اور سکولوں کے زہریلے نصاب کے ذریعے پھیلائی گئی مذہبی جنونیت کے نتیجے میں دنیا کے اندر ہماری کوئی عزت نہیں ہو رہی۔ اس کے نتیجے میں الٹا بے قابو اور وحشی ہجوم پیدا ہو رہا ہے۔ اب تو ہمارے دوست بھی ہم سے خوف کھانے لگے ہیں۔

Pervez Hoodbhoy
+ posts

پرویز ہودبھائی کا شمار پاکستان کے چند گنے چنے عالمی شہرت یافتہ سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اُن کا شعبہ نیوکلیئر فزکس ہے۔ وہ طویل عرصے تک قائد اعظم یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔