بدر رفیق
آج کے عہد میں مروجہ عالمی معاشی نظام کی زوال پذیری جہاں جدید اور ترقی یافتہ ترین مغربی سماجوں کے معیار زندگی کو متاثر کرتے ہوئے محنت کشوں کو ماضی کی حاصلات کے چھینے جانے کے خلاف اور اپنے حقوق کے دفاع کے لئے تاریخی احتجاجات کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ وہیں پر دوسری طرف پسماندہ اور محروم خطوں کی وسیع اکثریت کی زندگیاں جنگی حالات سے گزر رہی ہیں اور ہر لمحہ فلمانے کے لئے کسی ایڈونچر سے کم نہیں ہے۔ بد قسمتی سے آج کے اس ’جدید‘ مغربی سماج کا حصہ بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے اپنی زندگیوں پر کھیل جانے والے نوجوانوں کا تعلق ان خطوں سے ہے جن کا ماضی اسی جدید دنیا کو تعمیر کرنے میں صرف ہوا ہے۔ ان میں بالخصوص ایشیاء اورافریقہ سمیت ماضی کی وہ نوآباددیات شامل ہیں جہاں سے قدرتی وسائل کی تاریخی لوٹ مار سمیت جسمانی محنت کے لئے نوجوانوں کی وسیع مقدار کو برآمد کرتے ہوئے آج کی جدید دنیا کی تعمیر میں صرف کیا گیا۔ اس تاریخی حقیقت کے ذریعے یہاں کے معاشی و سماجی حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان پسماندہ سماجوں کی سب سے زندہ پرت نوجوان اپنی اور خاندان کی زندگی کمانے کے لئے اپنی زندگیاں ہی داؤ پر لگانے کے لئے کس قدر مجبور ہیں۔ عالمی طور پر اس بحرانی کیفیت کے نتیجے میں حالیہ عرصہ کے اندر جنگوں، چھوٹی لڑائیوں، تعصب، بنیاد پرستی، مظالم، امتیازی سلوک، تشدد اور بالخصوص ماحولیاتی بحران جیسے منفی مظاہر میں بڑے پیمانے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ صورتحال پسماندہ خطوں کے نوجوانوں کو وسیع پیمانے پر عالمی ہجرت کے لئے مجبور کرتے ہوئے نظرآرہی ہے۔ کرونا وباء کے پیش نظر اس ہجرت میں وقتی طور پر تیس فیصد کمی دیکھنے میں آئی تھی، مگر 2021ء کے بعد عالمی ہجرت میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق”دنیا بھر سے گیارہ کروڑ سے زائد افراد حالات کے پیش نظر جبراً اپنے وطن اور گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال یہ تعداد دس کروڑ چوراسی لاکھ تھی، 21ء کے بعد اس میں ایک کروڑ91 لاکھ کا تاریخی اضافہ ہوا ہے جس میں مزید اضافے کے خدشات ہیں۔“ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ فلیپو گرانڈی نے جنیوا میں ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ ”یہ اعداد و شمار عالمی طور پر بحرانی صورتحال کا ثبوت ہے۔“ انہی پسماندہ سماجوں میں جنوبی ایشیاء کا خطہ بھی شامل ہے، اس خطے کی تقسیم کے دوران بھی کئی ملین افراد کی ہجرت کے علاوہ لاکھوں کی اموات بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ جبکہ اس خونی تقسیم کے دوران تاریخی قربانیوں کے باوجود بھی بھارت اور پاکستان سمیت دیگر علاقوں میں بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جاسکا۔ اس خطے میں آج دنیا کی تقریباً نصف آبادی خط غربت سے نیچے سسک سسک کر زندگیاں گزارنے پر مجبور ہے، جن میں اکثریت بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔اس خطے کی معاشی پسماندگی، ماحولیاتی اور سماجی و ثقافتی بحران پسماندہ سماجوں کو مزید بحرانی کیفیت اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق کرتا ہوا نظر آرہی ہے۔ مسائل کے حل نا ہونے کی صورت غربت میں غرق وسیع اکثریت آج کے جدید عہد میں بھی پسماندہ اور رجعتی عقائد کا سہارا لیتے ہوئے نظر آتی ہے۔ حکمرانوں کی طرف سے مسائل کو حل کرنے کی سکت نا ہونے کے باعث انہی رجعتی عقائد کو بڑھاوا دینے کے لئے تمام تر ذمہ داری فطری حادثات اور تقدیر پر ڈال دی جاتی ہے۔ اس کیفیت میں پسماندگان کی جانب سے مسائل کے حل کو لے کر حکمرانوں کے خلاف احتجاجی تحریکوں کی مہم کی بجائے اکثر مایوسی کے اظہار کے طور پر محض فطرت سے شکوے شکایات ہی برآمد ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حالیہ حادثہ کے بعد عاطف نصیر کا ایک شعر مایوسی کی اس کیفیت کو کچھ یوں بیان کر رہا ہے:
ؔاےؔ سمندر! ترے کم ظرف حوالے نا گئے
ناؤ بھر لوگ مرے تُجھ سے سنبھالے نا گئے
اس خطے میں موجود دیگر علاقوں کے علاوہ مسئلہ جموں کشمیر سے جڑی اقوام آج بھی براہ راست سامراجی تسلط کے ساتھ ساتھ صدیوں پرانے عالمی طور پر تسلیم شدہ بنیادی حقوق سے بھی محروم نظر آتے ہیں۔ پاکستانی جموں کشمیر میں بسنے والے نوجوان بھی ان تمام تر مسائل کے ساتھ ساتھ روزگار کی عدم دستیابی اور معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں قدرتی حسن سے مالا مال خطے کو چھوڑ کر مشکل ترین زندگی گزارنے کے لئے جبراً بے گھر ہوجاتے ہیں۔ روزگار کے انتہائی محدود مواقع ہونے کی وجہ سے پنتالیس لاکھ کے لگ بھگ آبادی پر مشتمل اس علاقے سے نوجوانوں کی بڑی تعداد (مختلف اندازوں کے مطابق بارہ سے پندرہ لاکھ افراد) ملک سے باہر عرب کے تپتے صحراؤں یا یورپ کی یخ بستہ ہواؤں میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سے قبل پاکستانی جموں کشمیر کی دو نسلیں موسم کی سختیوں سمیت ان گنت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جلاوطنی میں اپنی زندگیاں دے چکی ہیں جبکہ دوسری اور بالخصوص تیسری نسل کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی جلا وطنی کاٹ رہیہے۔ ان نسلوں کی مشکلات کوپھر کبھی مخصوص تحریر میں ہی بیان کیا جاسکتا ہے۔ مختصریہ کہ سب سے بڑی تعداد عرب کے صحراؤں میں اپنی تقریباً ساری ہی زندگی جل کر خاندان کی زندگی کمانے کی کوشش میں مصروف عمل رہتی ہے۔ آخر میں کچھ میتوں کی شکل میں تدفین کے لئے آبائی علاقوں کی طرف بھیجے جاتے ہیں اور کچھ ہمہ وقت جسمانی و مالیاتی طاقت سے محروم ہو کر اپنی زندگی کے آخری ایام اپنے آبائی علاقوں میں گزارنے آتے ہیں۔ ان میں ایک خاطر خواہ تعداد ایسی بھی ہے جو بہتر معیار زندگی کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے سات سمند ر پار مغربی ممالک، بالخصوص یورپ پہنچنے کے لئے ہر طرح کے جائز و ناجائز سفری طریقے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔یورپ کا رخ کرنے والوں میں اکثریت غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ جس میں سے متعدد نوجوان مشرق وسطیٰ سے ہوتے ہوئے مختلف جنگل، نہریں، دریا اور سمندروں سمیت ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے زندہ یورپ پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ یورپ پہنچنے میں کامیاب ہونے والوں میں وہاں بھی تقریباً ایک دہائی تک مختلف نوعیت کی مشکلات (یہ مشکلات بھی الگ تحریر کی متقاضی ہیں) کا سامنا کرنے کے بعد اپنے لئے قدرے بہتر معیار زندگی کمانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس ایڈونچر کے دوران ہر سال ایک بہت بڑی تعداد انہی جنگلوں، دریاؤں اور سمندروں کو پار کرتے ہوئے اپنی جانوں تک سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔
یونانی کوسٹ گارڈز کے مطابق ایسا ہی ایک حالیہ واقع منگل اور بدھ کی درمیانی شب 14جون 2023ء کو یونان کے جنوبی ساحل سے 50 میل پیرلوس کے جنوب مغرب میں بھی پیش آیا۔ لیبیا سے اٹلی جانے کی کوشش میں ایک کشتی مشرقی لیبیا کی بندرگاہ سے گزشتہ جمعہ کے روز نکلی تھی، جس میں سینکڑوں نوجوان مہاجرین سوار تھے۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق کشتی کے الٹنے سے تقریباً 78 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 104افراد کو ریسکیو آپریشن کرتے ہوئے بچا لیا گیا، جو کہ یونان کے ساحلی علاقے کالا ماتا میں قائم بحری اڈے کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کشتی میں کم از کم 750افراد سوار تھے جن میں 100کے لگ بھگ بچے بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ ہی کے مطابق 500کے لگ افراد ابھی تک لاپتہ ہیں اور ان کی تلاش جاری ہے مگر ہر گزرتے لمحے ان کی زندگی کی امید دم توڑتی جارہی ہے۔ اس کشتی میں جموں کشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل کھوئی رٹہ کے ایک گاؤں بنڈالی کے 21افراد کے علاوہ پاکستانی، افغانی، شامی اور مصری بھی سوار تھے۔ ریسکیو آپریشن کے ذریعے 12پاکستانیوں کو بچا یا جا سکا ہے جن میں سے دو نوجوانوں محمد عدنان بشیر اور حسیب الرحمان کا تعلق پاکستانی جموں کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے۔
یہ حادثہ اس وقت رونما ہوا جب یونان میں آمدہ 25جون کو انتخابات ہونے جارہے ہیں جبکہ وقت کی عبوری حکومت نے اموات کے پیش نظر اس کو تاریخ کے بڑے کشتی حادثوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ اسی سلسلہ میں یونانی حکومت نے ملک بھر کے اندر تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے تمام تر تقریبات کو معطل کرنے کا اعلان کر لیا ہے۔ متعدد متحرک تنظیمیں اس حادثے کو لے کر سرگرم عمل ہیں جن میں ”پاکستانی کمیونٹی آف گریس یونیٹی“، ریسکیو تنظیم ”الارم فون“ سمیت دیگر مقامی اور یورپی تنظیمیں پسماندگان سے رابطے کرتے ہوئے ان کے پیاروں کی شناخت کی کوشش کر رہی ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یورپی یونین کی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس نے حادثہ کا شکار ہونے والی کشتی کو سب سے پہلے منگل کے روز پیرلوس کے شمال مغرب میں دیکھا تھا، جس کے بعد اٹلی کے حکام نے یونانی حکام کو اس کے بارے میں آگاہ کیا۔ الارم فون نے اس کشتی میں سوار افراد سے رابطہ قائم کرنے پر معلوم کیا کہ گرفتاری کے ڈر سے اس کشتی کا کیپٹین بیچ سمندر کشتی کو بے یار و مددگار چھوڑ کر ایک چھوٹی کشتی پر سوار ہو کر نکل چکا تھا۔ حادثہ سے تقریباً دو گھنٹے قبل رات دو بجے کے قریب کشتی نے اچانک اپنا رخ تبدیل کرتے ہوئے اٹلی کی بجائے یونان کی بارڈر کی جانب سفر شروع کر دیا تھا۔
سمندر کے راستے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے افراد کی حادثات کے بعد اموات کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ جانے والے غیر قانونی تارکین ہرسال حادثات کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ راستہ تارکین وطن کے یورپ جانے کے لئے خطرناک ترین سمجھا جاتا ہے، جس میں سمندر کے راستے یورپ داخل ہونے والے پوائنٹس میں اٹلی اہم پوائنٹ سمجھا جاتا ہے۔ 2020ء سے قبل کے پانچ سالوں میں اسی سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 18500ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ اصل تعداد اس سے بھی کئی زائد ہے۔ گزشتہ برس 2022ء میں بھی اس راستے بحیرہ روم عبور کرنے کی کوشش میں ہونے والے حادثات میں کم از کم 2ہزار 836 افراد کی ہلاکتیں رپورٹ کی جا چکی ہیں۔ اسی سال فروری 2023ء میں بھی اسی طرح کے ایک حادثہ میں بچوں سمیت 60سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ 81کو ریسکیو کر لیا گیا تھا جن میں سے 20کو انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا تھا۔ رائٹرز کے مطابق یہ کشتی ترکی سے اٹلی کے لئے نکلی تھی جس پر ڈیڑھ سو کے لگ بھگ پاکستانی، افغانی، ایرانی اور صومالیہ جیسے پسماندہ خطوں کے افراد سوار تھے۔ اسی طرح کے دیگر کئی حادثات کے دوران رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے اندر پندرہ ہزار کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال 2023ء کے پہلے نصف میں تقریباً تیرہ ہزار مہاجرین اٹلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے جبکہ المیہ یہ ہے کہ اس دوران اٹلی پہنچنے والوں سے زائد افراد ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔
اسی سال اٹلی کی دائیں بازو کی حکومت نے وزیر اعظم جارجیا میلونی کی سربراہی میں مہاجرین کے بارے نیا قانون پاس کیا ہے، جس کے تحت مہاجرین کو بچانے کے لئے کی جانے والی امدادی کارروائیوں کو مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ان تمام تر مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد منزل پر پہنچ جانے والوں کو بھی مغرب کی جدید دنیا میں مقامی آبادی کے تعصب کو جھیلنا پڑتا ہے۔ اس تعصب کو میڈیا سمیت دیگر ذرائع سے حکمران طبقات خود پروان چڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عالمی مہاجرین کے مسئلہ میں مقامی محنت کشوں کی مہاجرین سے نفرت کو مارکس نے حکمران طبقات کی طاقت قرار دیتے ہوئے متبادل کے طور پر ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ“ کا نعرہ دیا تھا۔
اکیسویں صدی میں ہجرت کرنے والے کروڑوں انسانوں کا مسئلہ بھی ماحولیات سمیت دیگر کئی بڑے مسائل کی طرح عالمی طور پر واضح، یکساں اور مثبت پالیسی کا متقاضی ہے۔ مہاجرین کا مسئلہ نہ کسی ایک ملک کا ہے اور نا ہی یہ کسی مخصوص بر اعظم کا مسئلہ ہے۔ اس صدی میں بڑھتے ہوئے مسائل میں مہاجرین کا مسئلہ بھی عالمی ہے، جس کو صرف اور صرف ہم آہنگی کے ذریعے ایک عالمی پالیسی کے تحت ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج ہم سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کے اس زوال پذیر عہد میں جی رہے ہیں جو گزشتہ پچاس سالوں میں سب سے کم شرح ترقی کا دور ہے۔ عالمی معیشت پچاس سالہ تاریخ میں مثالی سست روی کا شکار ہوتے ہوئے وسیع تر اکثریت کو مزید مشکلات سے دوچار کرتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب سرمایہ دارانہ معاشی ڈھانچہ دولت کے ارتکاز کو بڑھاوا دیتے ہوئے سات افراد کو دنیا کی نصف دولت پر قابض رکھنے اور ہر لمحہ دولت میں اضافے کی طرف لے جاتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ ایسے میں موجودہ عالمی حکمران طبقہ اور اس کے دانشور مہاجرین کے عالمی مسئلہ سمیت کسی بھی عالمی مسئلہ کا حل پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں سے توجہ ہٹانے کے لئے عالمی حکمران ہم آہنگی کی بجائے قومی تعصبات کو ابھار کر حکمرانی کو قائم رکھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔بیسویں صدی میں اس طبقاتی تفاوت کے ذریعے ایک طرف دولت کے انباروں اور دوسری طرف وسیع اکثریت کا وسائل اور صلاحیت ہونے کے باوجود ضروریات زندگی سے محرومی کے بڑھنے کا تناظر دینے والے کارل مارکس نے اس کا حل بھی پیش کیا تھا۔ آج بھی وسائل کی نئے سرے سے تقسیم کے علاوہ مروجہ نظام کی حدود میں ماحولیات کے مسئلہ سمیت کسی ایک بھی مسئلہ کو حل کرنا ناممکن نظر آرہا ہے۔ مخاصمت پر مبنی موجودہ عالمی تضادات کو غیر مخاصمتی تضادات اور صحت مند مقابلہ میں بدلنے کے لئے دولت کا بٹوارہ نئے سرے سے کرنا ہوگا۔ تمام قدرتی وسائل و ذرائع پیداوار کو سات لوگوں کے تسلط سے واگزار کرواتے ہوئے سماج کے اجتماعی کنڑول میں دینا ہوگا۔ اکثریتی انسانوں پر مبنی اجتماعی اداروں کے ذریعے ہر بر اعظم کی رضاکارانہ فیڈریشن کو قائم کرتے ہوئے ایک عالمی فیڈریشن کا قیام عمل میں لانا ہوگا۔ یہ عالمی فیڈریشن نا صرف کرہ ارض سے بنیادی مسائل کا خاتمہ کر سکتی ہے بلکہ مہاجرین و ماحولیات سمیت دیگر عالمی مسائل کے حل میں ایک انقلابی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔