اویس قرنی
چند روز قبل پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد کی دو یونیورسٹیوں سے دو طالب علموں کے جنازے اٹھے۔ بحریہ یونیورسٹی میں ایک طالبہ یونیورسٹی کی زیرِ تعمیر عمارت سے گری اور ہسپتال پہنچتے پہنچتے اس دنیا سے ہی چلی گئی۔ کامسیٹ یونیورسٹی کا ایک نوجوان طبیعت خراب ہونے پر بِلکتا رہا مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے نہ کوئی طبی امداد فراہم کی اور نہ ہی کسی گاڑی کواندر آنے کی اجازت دی تا کہ طالب علم کو بروقت ہسپتال پہنچایا جا سکتا۔
یہ دوجنازے پاکستان کے تعلیمی نظام اور تعلیم کے کاروبار کا بھدہ چہرا آشکار کرتے ہیں۔ ان واقعات سے قبل لاڑکانہ میں میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ کے مبینہ قتل کا واقعہ رونما ہوا جسے خود کشی کی شکل دی گئی اورتاحال اس حادثے سے متعلق کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرہ انتہائی گل سڑ چکا ہے اور نوجوانوں کی خود کشیوں کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ معاشرہ بنیادی تبدیلی کا خواہاں ہے ورنہ اس نظام میں سوائے ہوس، ذلت او ررسوائی کے کچھ نہیں۔
بحریہ یونیورسٹی کی 23 سالہ حلیمہ امین زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے پمز ہسپتال میں جاں کی بازی ہار گئی۔ یونیورسٹی کی زیر تعمیر عمارت کی چوتھی منزل سے گرنے کی وجہ سے اس کی کئی ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں حتیٰ کہ ریڑھ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ اس ادارے کے سینکڑوں طالب علم سڑکوں پر نکل آئے اور انتظامیہ کی دھمکیوں کے باوجود ایک بھر پور احتجاج ریکارڈ کرایا۔
منافعے کی ہوس نے ان نجی اداروں کو روبوٹس کی فیکٹریاں بنا کر رکھ دیا ہے۔ جہاں ایک طرف تعلیمی معیار پاتال میں گر رہا ہے تو دوسری طرف نئی یونیورسٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ فیسیں بٹورنے کے لیے زیادہ سے زیادہ طلبہ داخل کیے جاتے ہیں۔ اس بڑھتی تعداد کے لیے پہلے ایوننگ شفٹیں جاری ہوئیں پھر رات گئے تک کی کلاسوں کا اجراع ہوا، ویک اینڈ کلاسوں میں طلبہ داخل ہوئے لیکن زیادہ فیسوں کے حصول کی ہوس بڑھتی گئی۔ یونیورسٹیوں کی منظور شدہ زمین کے باہر جب تعمیرات کی گنجائش کم ہوئی تو ادارے میں موجود جگہوں کو استعمال میں لایا جانے لگا۔
جہاں پہلے کبھی درختوں کے جھرمٹ اور کھیل کے میدان ہوتے تھے اب وہاں کنکریٹ کے ڈربے بنائے جا رہیں۔ جہاں نوجوانوں کو بہتر زندگی کے حصول کے درس دیے جاتے ہیں وہیں دوسری طرف زندگی کے ضامن ماحول کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ جہاں طلبہ کے لیے ہاسٹل بننے تھے وہاں ڈیپارٹمنٹ بن گئے ہیں اور طلبہ کو پرائیویٹ ہاسٹل مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پارکنگ کے لیے چھوڑی گئی جگہیں بھی اس ہوس سے بچ نہیں پارہیں۔ گویا یونیورسٹی انتظامیہ منافع خوری کاکوئی بھی موقع اور ذریعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی۔ طلبہ کو ایک صارف کے طور پر نچوڑا جا رہا ہے۔ زیرِ تعمیر عمارات میں بھی کلاسوں کا اجرا جاری ہے جس کی قیمت حلیمہ امین نے اپنی جان سے چکائی ہے۔
ہر سمسٹر کی تقریباً سوا لاکھ فیس دینے والا کامسیٹ یونیورسٹی کا 22 سالہ طالب علم انعام الحق جاوید صبح کی پہلی کلاس کے ختم ہوتے ساتھ ہی بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ ادارے میں طبی سہولیات کی عدم موجودگی میں جب اس کے دوستوں نے باہر سے ایمبولینس کی سہولت حاصل کرنی چاہی تو انتظامیہ نے اسے داخل نہ ہونے دیا۔ نہ ہی کسی ذاتی گاڑی کو اندر آنے دیا گیا۔ یہ آدھاگھنٹہ ایک خوبرو نوجوان کی جان لے گیا۔ طالب علموں کے متعلق ادارے میں ابتدائی طبی سہولیات کا بھی بندوبست نہیں ہے۔
تعلیمی اداروں کی فیس کی رسیدوں میں باقی کئی فراڈوں سمیت ایک فراڈ طبی سہولیات کی مد میں وصول ہونے والی رقم بھی ہوتی ہے۔ ہر طالب علم سے ہزاروں روپے صرف طبی سہولیات کی مد میں وصول کئے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کروڑوں روپے بنتے ہیں جو ہر سال طلبہ کی جیب سے نکالے جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ انعام الحق ہے جسے سہولت تو کیا دی جاتی بلکہ اس کی موت کا سامان کیا گیا۔ انعام کے ساتھیوں نے بھر پور تحریک چلائی ہوئی ہے اور انصاف کے خواہاں ہیں۔
انہیں قتل گاہوں کا ایک اور قصہ نمرتا کماری کا ہے۔ جو ڈاکٹری کا خواب سجائے بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ میں داخل ہوئی تھی لیکن اس کے ہاسٹل کے کمرے سے اس کا مردہ جسم نکلا۔ اس کے گھر والوں اور بہت سے لوگوں کو قتل کا شبہ ہے لیکن حقائق تاحال پوشیدہ ہیں۔ لواحقین اس بات پرمصر ہیں کہ یہ خود سوزی نہیں بلکہ ایک وحشیانہ قتل ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2014ء کے سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد سے پورے ملک کے طول وعرض میں تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا شور مچایا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کو جیل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ہر جگہ کیمرے نصب ہیں، خاردار تاروں کے جال بچا دیے گئے لیکن پھر بھی طلبہ کا محفوظ ہونا تو درکنار مجرمان کی نشاندہی کرنا بھی محال ہو گیا ہے۔ سکیورٹی کے نام پر نوجوانوں کو ساتھ بیٹھنے اور اکٹھا ہونے سے روک دیا جا تا ہے لیکن مجرمانہ سرگرمیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ نمرتا کماری کے انصاف کے لیے کراچی سمیت سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے منظم ہوئے ملک کے دیگر حصوں میں بھی دعائیہ سرگرمیاں ہوئیں لیکن پھر دن گزرتے ہیں اور پھر خاموشی…نمرتا کی جگہ حلیمہ امین کے دکھ نے لی تو پھر حلیمہ کے درد کی جگہ انعام کے سانحے نے۔ مظاہرے اور احتجاج ناموں کی تبدیلی کے ساتھ جاری ہیں لیکن انصاف نہیں ہو رہا۔
انصاف تو تب ہے کہ اول تو فوری طور پر حلیمہ کی ہلاکت کا مقدمہ بحریہ یونیورسٹی کے مالکان اور انتظامیہ پر درج ہو اور انعام کی ہلاکت کا مقدمہ کامسیٹ یونیورسٹی کے مالکان اور انتظامیہ پر درج کیا جائے اور نمرتا کی ہلاکت کا مقدمہ بھی ادارے کی خصوصاً سکیورٹی انتظامیہ پر عائد ہو۔ دوم یہ کہ درختوں کو کاٹ کر بے جا عمارات کی تعمیر روکی جائے، کھیل کے میدان پر کنکریٹ ڈربے نہ بنیں اور یہ بھی کہ طلبہ سے مختلف مدوں میں لوٹی گئی دولت کا حساب ہواور رسیدوں میں موجود ایک ایک سہولت کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
لیکن افسوس کہ یہ ممکن نہیں! منافع اور زَر کے نظام میں منافعے کی فیکٹریوں پر قدغنیں نہیں لگا کرتیں اور جلاد کبھی انصاف نہیں کیا کرتے۔ ایسی کئی جانیں جا رہی ہیں لیکن کسی میڈیا پر کوئی قیامت برپا نہیں ہورہی۔ عدالتوں میں بھی اگر یہ مقدمے گئے تو وہی ہوگا جو یہاں ہوتا رہا ہے۔ پیسے کی طاقت بولے گی۔ ان اداروں کے بڑے بڑے لیگل ایڈوائزرز ادارے کو بری الذمہ کروا لیں گے۔ اگر کسی پر بوجھ لادا بھی گیا تو وہ ملازم ہوگا ادارے کے مالکان نہیں جو اس دھندے میں اربوں روپے بٹور رہے ہیں۔
ہاں! انصاف وقت کرے گا۔ جب طلبہ اپنا حق چھیننے کے لیے اٹھیں گے اورتعلیمی ادارے کے معاملات میں مداخلت کا حق حاصل کریں گے۔ ان ہلاکتوں کے بعد جو طوفان ان دو اداروں میں برپا ہوا ہے یہ طوفان ایک طغیانی کا باعث بنے گا۔ طلبہ کا یہ باغی ریلا پورے پاکستان کے نوجوانوں کو اپنے اندر سموئے گا۔ قائداعظم یونیورسٹی سے لیکر جامعہ پنجاب اور سندھ یونیورسٹی میں بھی بغاوت کے یہ شرارے اٹھ رہے ہیں۔ یہ بہت جلد یکجا ہوں گے۔ طلبہ یونین بحالی کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ اور پھر یہ تحریک ہر نمرتا، ہر حلیمہ، ہر انعام اور ہر مشال کے قتل کا حساب اس نظام سے لے گی۔