پاکستان

بلوچستان: بطور احتجاج مجبور کسان اپنی فصلیں خود اجاڑ رہے ہیں!

امان اللہ کاکڑ

زراعت کا شعبہ وہ واحد شعبہ ہے جس کے ساتھ دنیا کا ہر انسان نہ صرف بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر منسلک ہے بلکہ نسل انسان کے ساتھ ساتھ حیوانات اور چرند پرند کا انحصار بھی کسی نہ کسی شکل میں زراعت اور اس سے جڑی پیداوار پر ہوتا ہے۔ خوراک سے لے کر کپڑے، ادویات، فرنیچر، پانی، لکڑی اور انسانی ضروریات کی دیگر اشیا کا حصول بھی زراعت سے وابستہ ہے۔

پاکستان میں جس طرح کاتاخیر زدہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، اس میں وہ سکت نہیں کہ کسان طبقے کے مفادات کو خاطر میں لاتے ہوئے زراعت جیسے اہم شعبے میں کوئی بہتری لاسکے اور اس کو جدید خطوط پر استوار کر سکے۔ لہٰذا یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ بجائے بہتری کے یہ نظام ہر شعبہ زیست کو روند کر برباد کر رہا ہے۔

ادہر، اگر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو واضح ہو گا کہ متحارب صنعتیں ہیں جو غیر ضروری اشیاکی پیداوار میں ایک دوسرے پر سبقت لئے جارہی ہیں جس کا حقیقی زندگی کی ضرورتوں سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا لیکن ایڈورٹائزنگ صنعت ان اشیا کا استعمال عام کر دیتی ہے۔

شرح منافع کو بڑھانے کیلئے یہ سامراجی کمپنیاں جنگلات کو کاٹ رہی ہیں اور پلاسٹک بیگز و دیگر مضر اشیا کی پیداور سے ماحولیات کو ہر ممکن طریقے سے آلودہ کیا جا رہا ہے۔ بیماریاں ہیں کہ پھیلتی ہی جا رہی ہیں۔

اس صورتحال میں پاکستان بھی کوئی استثنا نہیں ہے۔ گو زرعی شعبہ پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سے مشابہ ہے لیکن یہ ہڈی بھی مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اکثر زرعی اشیاجیسے خوردنی تیل وغیرہ، جن کی پیداوار پاکستان خود کرسکتا ہے، کودرآمد کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں زراعت کے بحران کا درست اندازہ تب ہی لگایا جاسکتا ہے جب بلوچستان کی زراعت کی کیفیت کو دیکھا جائے۔ بلوچستان‘ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور زراعت کے حوالے سے بھی کافی حد تک موزوں علاقہ ہے۔ یہاں تقریباً ہر قسم کا پھل کاشت کیا جا سکتا ہے، مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں اور خوش قسمتی سے ہر موسم میں زرعی اجناس کاشت ہوتی ہیں۔ لیکن پھر کیا وجوہات ہیں کہ بلوچستان کی زراعت اور اس سے منسلک کسانوں کی حالت زبوں حال ہے؟

اس کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی اس ریاست کا نظام حکومت اور اس سے جڑے انتظامی اداروں کی عدم توجہی ہے۔

کسان مختلف مسائل یعنی بیج کی بوائی سے منڈی تک رسائی جیسے گوں نا گوں مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک طرف غربت اور مہنگائی اور دوسری طرف زرعی اجناس کی کم قیمتوں پر فروخت جلتی پر تیل کا کام کرتی رہی ہے۔

اسی طرح صورتحال کی سنگینی کا مزید احساس تب ہوتا ہے جب بیج، زرعی ادویات اور کھاد کی کمپنیوں کے فراڈ کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ صرف پچھلے چند مہینوں میں بلوچستان کے اندر تقریباً 40 جعلی دوا ساز کمپنیاں پکڑی گئیں جو کسانوں کو غیر معیاری ادویات فراہم کرتی تھیں۔ بیج مہیا کرنے والی کمپنیاں بھی کچھ زیادہ دودھ کی دھلی نہیں ہیں۔ یہ کمپنیاں بھی نان سرٹیفائیڈ بیج فروخت کرنے میں ملوث پائی گئی ہیں جس کا خمیازہ کسانوں کو فصل کے دوران خاص کار گاجر کی فصل کے دوران بھگتنا پڑا ہے۔

بجلی کی لوڈشیڈنگ سے کسانوں کی فصلات الگ سے تباہ ہو رہی ہیں کیونکہ کسانوں کا کاشت کاری کیلئے درکار آبپاشی کا انحصار بجلی پر ہے۔ اگر کسان ان تمام کھٹنائیوں سے گزر کر بھی فصل کی ترسیل منڈی تک کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ اسے اسکی فصل کی اچھی قیمت ملے گی۔

بلوچستان کے کسانوں کا ایک اور اہم مسئلہ جو کسی المیے سے کم نہیں ہے، زرعی اجناس کی کھپت کیلئے منڈیوں کے فقدان کا بھی ہے لہٰذا یہاں کے کسانوں کو بوجوہ مجبوری پھلوں، سبزیوں اور دیگر زرعی اجناس کو پاکستان کی دوردراز منڈیوں لاہور، فیصل آباد، ملتان، پشاور اور کراچی لے جانا پڑتا ہے۔ اس طرح منڈیوں کے فاصلے یہاں کے کسانوں کیلئے بجائے فائدہ پہنچانے کے الٹا نقصان و خسارے کا سبب بن جاتے ہیں۔

اندرون بلوچستان کھیتوں اور قصبات کو ملانے والی سڑکیں یا تو کچی ہیں یا پھر بدعنوان ٹھیکیداری سسٹم کی وجہ سے پکی ہوکر اب مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں۔ لہٰذا زرعی اجناس کھیتوں سے لوکل مارکیٹ اور پھر اندرون ملک منڈیوں میں پہنچتے پہنچتے اکثر ناکارہ ہوکر گل سڑ جاتی ہیں۔ اسی طرح ہمسایہ ملکوں یا دیگر صوبوں کی زرعی اجناس کا بھی منڈیوں میں آنا بلوچستان کے کسانوں کیلئے ابتر بننے کا سبب بن جاتی ہیں۔

اس صورتحال کو کولڈ سٹوریجز کے ذریعے کسی حد تک قابو میں لایا جاسکتا ہے مگر صوبے میں کولڈ سٹوریج کی سہولت دستیاب نہیں۔ صوبے کے اکثر کسان بطور احتجاج کھیتوں میں ہی اپنی مشقت سے تیار کردہ فصل کو خراب کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا پھر اجناس کو کھیتوں سے ٹرکوں میں لوڈ کرکے قصبات کے بازاروں کی سڑکوں میں پھینک کر احتجاج ریکارڈ کر وایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں تازہ مثال ضلع قلعہ سیف اللہ کے کسانوں کی ہے جنہوں نے ٹماٹر کی فصل کے مناسب دام نہ ملنے پر بطور احتجاج کھیتوں سے ٹماٹر ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں میں ڈال کر بیچ بازار میں پھینک کر زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔

کسان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ٹماٹر کے ایک کریٹ پر انکی اوسط لاگت 160 روپے آتی ہے جبکہ وہی کریٹ ان سے منڈی میں 60 روپے کا خریدا جاتا ہے۔ اس طرح فی کریٹ انکو 100 روپے کے نقصان کا سامنا ہے لیکن مذکورہ احتجاج پر حکومت وقت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

بلوچستان کی زراعت اور کسانوں کو اگر ایک طرف درج بالا مسائل کا سامنا ہے تو دوسری طرف یہاں کے حکمرانوں اورمقامی سرمایہ داروں نے بھی مکمل مجرمانہ خاموشی اور مسلسل عدم توجہی اختیار کر رکھی ہے۔ یہاں صوبہ کے مختلف علاقے پانی کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ آئے روز پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ صورتحال انتہائی تشویشناک بنتی جارہی ہے۔ پانی کی قلت کا اندازہ اس بات سے بہتر طور پر لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کے کسان جنہوں نے برسوں کی محنت سے جو سر سبز و شاداب باغات اگائے تھے، ایک ایک کرکے اکھاڑ رہے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts