پاکستان

جموں کشمیر: ہتک عزت بل اسمبلی میں پیش، صحافت تنقید سے پاک ہوگی

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیرکی حکومت نے ہتک عزت سے متعلق نئے قانون کا بل اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ بل کے خلاف صحافیوں نے بدھ کے روز اسمبلی سیشن کا بائیکاٹ کیا اور ریاست گیر احتجاج کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

یہ بل ہتک عزت، پینل کوڈ اور کوڈ آف کریمنل پروسیجر سے متعلق ہے اور اسے ’آزاد جموں و کشمیر ڈی فیمیشن(ہتک عزت) ایکٹ2021‘ کا نام دیا گیا ہے۔

بل کو پیچیدہ بنانے کیلئے براہ راست اخبار، ٹی وی، ریڈیو اور ڈیجیٹل و سوشل میڈیا کا تذکرہ کرنے کی بجائے الیکٹرانک آلات، ریڈیو ٹیلی گراف، ریڈیو ٹیلی فون، کیبلز، کمپیوٹر، وائرز، فائبر آپٹک، لنکیج یا لیزر بیم وغیرہ کے ذریعے تحریری علاماتی، سگنلز، تصاویر، آوازیں وغیرہ عوام تک پہنچانے کے ذرائع کو براڈ کاسٹنگ قرار دیا گیا ہے۔ براڈ کاسٹنگ کے ذرائع استعمال کر کے کسی بھی طرح کے زبانی، تحریری یا بصری شکل میں غلط اقدام، اشاعت یا غلط بیان کی سرکولیشن، جو کسی شخص کی شہرت کو نقصان پہنچائے، اسے دوسرے کے سامنے نیچا دکھانے کا باعث ہو، اسکا تمسخر اڑانے کا باعث ہو، اس پر تنقید کا باعث ہو، ناپسندیدگی، توہین یا نفرت کا باعث بن رہی ہو تو وہ ہتک عزت قرار پائے گی۔

بل میں ہتک عزت کی دو اقسام ۱)بہتان یا غیبت اور ۲) توہین بتائی گئی ہیں۔

کوئی بھی غلط زبانی بیان یانمائندگی جو ہتک عزت کے مترادف ہو، بہتان کے طور پر قابل عمل ہوگی۔

کوئی بھی غلط تحریری،دستاویزی یا بصری بیان یا نمائندگی، جو یا تو عام شکل، یا اظہار یا الیکٹرانک یا دیگر جدید ذرائع یا آلات کے ذریعے کی گئی ہے اور ہتک عزت کے مترادف ہے،تو توہین کے طور پر قابل عمل ہوگی۔

ہتک آمیز مواد کی اشاعت میں جس کی ہتک کی گئی ہو، اس کو پہنچنے والے نقصان کے ثبوت کے بغیر بھی ہتک عزت قابل عمل ہوگی اور اگر ہتک عزت ثابت ہو جائے تو نقصان کے ثبوت کے بغیر بھی نقصان کو مان لیا جائے گا۔

جن ملزمان یا جن کے خلاف ہتک عزت کی شکایت درج کروائی جائے گی، ان کو دفاع کا حق بھی دیا گیا ہے۔

ہتک عزت کے الزام سے اس شخص کو بری کیا جائے گا، جو شکایت میں شامل کئے گئے بیان کا مصنف، ایڈیٹر، پبلشر یا پرنٹر نہ ہو، یا پھر وہ شائع ہونے والا مواد درست ہو، مفاد عامہ میں ہو اور محض رائے کا اظہار ہو، نہ کے حقیقت کے دعوے کے ساتھ ہو، اور نیک نیتی سے بھی شائع کیا گیا ہو۔ یا وہ حقیقت پر مبنی ہواور عوام کی بھلائی کیلئے ہو۔ یا وہ بیان مدعی کی طرف سے اشاعت کیلئے دیا گیا ہو۔ یا مناسب معافی کی آفر کی گئی ہو اور معافی نامہ بھی اسی طرز جتنا شائع کرنے کی آفر کی گئی ہو لیکن مدعی نے یہ آفر قبول نہ کی ہو۔ یا تردید بھی اسی نوعیت کی شائع کرنے کی آفر کی گئی ہو لیکن قبول نہ کی گئی ہو۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اسمبلی میں دیا گیا ایسا بیان، رپورٹ، پیپر، نوٹ یا ایسی کارروائی جس کی اشاعت قانون ساز اسمبلی کے حکم سے ہوئی ہو، یا عدالتی کارروائی، جس کی اشاعت کا حکم عدالت نے دیا ہو، یا ایسا معاملہ جو حکومتی حکام کی جانب سے لکھا اور شائع کیا گیا ہو، تب تو ہتک عزت کی سزا سے بچت ہو سکتی ہے۔

پارلیمانی کارروائی کی منصفانہ اور درست اشاعت، عدالتی کارروائی کی اشاعت یا حکام کی جانب سے دیئے گئے بیانات کی اشاعت پر شکایت ہو تو پھر بھی ہتک عزت سے بچت ہو سکتی ہے۔

مسودے میں یہ ایک جگہ یہ لکھا گیا ہے کہ ہتک عزت کیلئے14روز تک کا نوٹس دیا جانا ضروری ہے اور یہ نوٹس قابل اعتراض اشاعت کی اطلاع ملنے کے دو ماہ کے اندر دینا ہوگا۔ تاہم ایک اور جگہ ہتک آمیز اشاعت کے علم میں آنے کے 6ماہ کے اندر کارروائی کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔

مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔ ہتک عزت ثابت ہونے پر عدالت غلط خبر کا معافی نامہ بھی اسی سائز اور جگہ پر شائع کرنے اور 50ہزار معاوضے کی سزا دے سکتی ہے۔ متاثرہ شخص کی جانب سے خصوصی نقصان ثابت کرنے کی صورت میں کم از کم 3لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔

مصنف، ایڈیٹر، پروپرائیٹر، پبلشر، براڈ کاسٹ اسٹیشن مالک، اخبار یا براڈکاسٹ اسٹیشن کے افسر، نوکر یا ملازم یا کسی بھی اور شخص کے خلاف ہتک عزت کی کارروائی ہو سکے گی۔

ضلعی عدالت ہتک عزت کی اپیل کی سماعت کرے گی اور تین ماہ کے اندر فیصلہ سنانے کی پابند ہوگی۔ ضلعی عدالت کے فیصلہ کے خلاف اندر 30ایام عدالت العالیہ میں اپیل کی جا سکے گی اور وہاں اندر60ایام کیس نمٹایا جائے گا۔

پینل کوڈ کی سیکشن500میں ترمیم کر کے کم سے کم 2سال قیدو جرمانے یا 5سال قید اور کم از کم ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں شامل کی گئی ہیں۔ بغیر وارنٹ گرفتاری نہیں ہو سکے گی۔ سیکشن501میں بھی ترمیم کی گئی ہے اور ایک سیکشن502-Aکا اضافہ کیا گیا ہے۔

یوں اگر دیکھا جائے تو افراد، حکام، قانون سازوں اور ججوں کی اجازت کے بغیر شائع ہونے والا ہر سطح کا مواد قابل گرفت ٹھہرے گا۔ یہ درست ہے کہ بغیر تحقیق خبروں کی اشاعت نہیں ہونی چاہیے،لیکن معلومات تک رسائی کا حق تو ریاست نے خود ہی چھین رکھا ہے۔ ایسی صورت میں صحافی مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس طرح معلومات کے غلط ہونے سمیت کسی خاص مقصد کیلئے فراہم کئے جانے کا احتمال ہمیشہ رہتا ہے۔

حکومتی اداروں سے متعلق غلط معلومات کو روکنے کیلئے حکومت کو معلومات تک رسائی کا حق دینا چاہیے۔ آرٹی آئی کیلئے قانون سازی کی جائے اور اس کے بعد فیک نیوز کے تدارک کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ تاہم ہتک عزت ایکٹ محض ہر طرح کی تنقید اور سوال کرنے کے عمل کو روکنے اور اظہار رائے کی آزادی کو مکمل طور پر چھیننے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔