دنیا

کلونیل ازم: 120 سالہ انگریز دور میں 31 قحط پڑے، 2 ہزار سال میں 17

فاروق سلہریا

سامراجی ممالک میں حکمران طبقے آج بھی یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ کلونیل ازم نے افریقہ اور ایشیا کو دور جہالت اور عہد بربریت سے نکالا۔ میں جن دنوں اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS) میں پڑھ رہا تھا، ان ہی دنوں سیاسیات کے شعبے میں ایک برطانوی ہم مکتب (جو بہت اچھی اردو بھی بولتا تھا) اپنی پی ایچ ڈی تحقیق سے یہ ثابت کرنے میں لگا تھا کہ اردو ہندی تنازعے میں انگریز سرکار معصوم تھی، اس لڑائی کے ذمہ دار ہندو اور مسلمان خود تھے۔

1878 میں ہندوستانی قوم پرستوں نے انگریز سر کار کو ایک تحقیق کے ذریعے بتانے کی کوشش کی کہ جناب آپ کے 120 سالہ دور میں ہندوستان کے اندر 31 دفعہ قحط پڑ چکا ہے۔ یہ تحقیق اس زمانے کے معروف جریدے ’جرنل آف سٹیٹسٹیکل سوسائٹی‘ میں شائع ہوئی۔

ہندوستان میں،انگریز سرکار سے پہلے کے دو ہزار سال میں 17 دفعہ قحط پڑا۔ سامراجی سکالر ان قحطوں کی ذمہ داری برے موسموں اور خشک سالی پر ڈالتے ہیں۔

یاد رہے، مائک ڈیوس جیسے مارکسی محققین یہ ثابت کر چکے ہیں کہ قحط ہندوستان میں پڑا یا چین میں،اس کی وجہ کلونیل ازم تھی نہ کہ خراب موسم۔بنگال کے قحط پر تحقیق کرنے والے،نوبل انعام یافتہ اکانومسٹ امرتیا سین کا تھیسس یہ ہے کہ جہاں جمہوریت ہوتی ہے وہاں قحط نہیں پڑتا۔

گو کلونیل ازم سے قبل ہندوستان میں کوئی جمہوریت نہ تھی، لیکن جان لیوا قحط کم ہی پڑے۔ مغلیہ دور میں شائد ہی قحط پڑا ہوجس نے لاکھوں تو کیا ہزاروں لوگوں کی جان لے لی ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اکبر سے لے کر اورنگزیب تک، مغلیہ عہد میں غذائی اجناس کی برآمد پر پابندی تھی، قیمتوں پر نظر رکھی جاتی تھی جبکہ خشک سالی کے ادوار میں مفت خوراک بانٹی جاتی تھی جس کے لئے غلہ ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ اورنگرزیب کے عہد میں خشک سالی نے لگ بھگ دو سال کے لئے سلطنت کو گھیر لیا۔ اورنگزیب نے سرکاری خزانے کے منہ کھول دئے۔ غریبوں کو تو مفت خوراک فراہم کی گئی(یہ اس حکمران کا ذکر ہے جسے بعض افراد کی جانب سے مغلیہ سلطنت کے زوال کا سبب بھی قرار دیا جا تاہے)۔

حقیقیت یہ ہے کہ اٹھارویں صدی تک بھی چین اور ہندوستان عالمی سطح پر دو بڑی معشیتیں تھیں جن کا کلونیل ازم کے ہاتھوں کچومر نکل گیا۔

مندرجہ ذیل گراف میں دکھایا گیا ہے کہ ان دو ممالک کا عالمی جی ڈی پی میں کتنا حصہ تھا اور وہ کس طرح کلونیل دور میں کم ہوا:

مندرجہ ذیل جدول میں دکھایا گیا ہے کہ عالمی مینوفیکچرنگ میں ہندوستان اور چین کا کتنا حصہ تھا:

ہمارا ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ کلونیل ازم سے قبل ہندوستان یا چین کوئی فلاحی جمہوری ریاستیں تھیں مگر یہ بیانیہ بھی سراسر غلط ہے کہ مفتوحہ ممالک کے لوگ بھوک ننگ اور جبر کا شکار تھے جنہیں یورپی سامراج نے بھوک اور بربریت سے نجات دلائی۔

عین ممکن تھا کہ ہندوستان اور چین بھی،یا مصر اور سلطنت عثمانیہ جدید دور میں ایک بڑی قوت بن کر داخل ہوتے لیکن جس طرح یورپی سامراج نے بزور طاقت اپنا سرمایہ دارانہ نظام لاگو کیا، اس نے انہی ممالک مین سرمایہ دارانہ ترقی کا راستہ روک دیا۔ وکٹوین عہد میں برطانیہ نے 71 مرتبہ گن بوٹ ڈپلومیسی سے کام لیا (یعنی تجارت کے لئے اپنے معاہدے لاگو کرنے کے لئے بحری حملے کئے)۔

گو جس طرح کی معاشی ترقی چین و ہندوستان میں ہوئی ہے، اس پر ہمارے بے شمار اعتراضات ہیں مگر کلونیل ازم کا دفاع کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ آج عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ لگ بھگ 18 فیصد اور ہندوستان کا 10 فیصد ہے۔ اوپر دئیے گئے گراف میں آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ آزادی کے وقت،لگ بھگ ستر سال قبل ان دو ممالک کا حصہ کتنا تھا۔

کلونیل ازم کا دفاع کرنے والے ’سکالرز‘ اور حکمرانوں پر فیک نیوز پھیلانے کے تحت مقدمے چلنے چاہئیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔