فاروق سلہریا
گذشتہ روز سوشل میڈیا پر پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر تبصرے ہوتے رہے۔ بہت سے تنقیدی تبصرے دیکھنے کو ملے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب یہ پاگل پن ہو رہا تھا تو کم از کم لاہور کراچی جیسے بڑے شہروں میں چند ہی ’شر پسند‘ تھے جو ان ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کر رہے تھے۔
بھارت میں صورت حال مختلف تھی۔ وہاں بایاں بازو زیادہ طاقتور تھا اور دونوں بڑی کیمونسٹ جماعتوں نے ان دھماکوں کی مخالفت کی تھی۔
میں ان دنوں نوائے وقت گروپ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے انگریزی اخبار’دی نیشن‘ (لاہور) میں کام کرتا تھا۔نوائے وقت گروپ ان دھماکوں کا سب سے بڑا پرچارک تھا۔ جس دن چاغی میں دھماکے ہوئے،اس شام اخبار کے مالک مجید نظامی نے نوائے وقت اور ’دی نیشن‘کے سٹاف کو مٹھائی بھیجی۔
میں نے مٹھائی چکھنے سے انکار کر دیا۔ میں نیوز روم میں کام کرتا تھا۔ نیوز روم میں کچھ ترقی پسند لوگ کام کرتے تھے مگر بہت سے ایسے بھی کولیگ تھے جو بڑھک بازی کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔بطور سیاسی کارکن میری زندگی میں کئی ایسے موقع آئے جب سیاسی و نظریاتی لحاظ سے شدید تنہائی کا احساس ہوا۔ ایسی تنہائی اس سے پہلے کبھی محسوس ہوئی نہ کبھی بعد میں۔ لگتا تھا پورا ملک ایٹمی پاگل پن کا شکار ہو چکا ہے۔
مجھے ٹھیک سے تو یاد نہیں لیکن ہندوستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے لگ بھگ تین ہفتے کے بعد پاکستانی ریاست نے یہ دھماکے کئے۔ اس دوران نواز شریف،جو دوسری بار وزیر اعظم بنے تھے، یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ ’پوری قوم‘کو ساتھ ملا کر بھارت کو ایٹمی جواب دیں گے۔ اس دوران بے نظیر بھٹونے بطور قائد حزب اختلاف نواز شریف کو چوڑیاں بھیجیں۔نو کمنٹس!
پیپلز پارٹی یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی تھی کہ ایٹمی پروگرام کی بانی تو وہ ہے۔ جب ایٹمی دھماکے کر دئیے گئے تو پیپلز پارٹی نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ نواز شریف نے محض کریڈٹ لیا ہے،ایٹم بم کے اصل ابا جی تو ذولفقار علی بھٹو ہیں۔
ایک لڑائی ایٹمی سیاستدانوں کے مابین بھی ہو رہی تھی۔ ایک لابی اے کیو خان کو ایٹم بم کا ابا جی ثابت کرنے پر تلی تھی۔ دوسری لابی ثمر مبارک مند کو ابا جی بنانے پر تلی تھی۔
دھماکے سے غالباََ اگلے روز جائنٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائٹس کے پلیٹ فارم سے لگ بھگ دو سو کارکنوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں مظاہرہ کیا۔ کراچی میں بھی ایسا ایک مظاہرہ ہوا تھا۔ ملک میں موجود بائیں بازو کے تمام گروہ اس پاگل پن کے خلاف تھے۔
ان مٹھی بھر لوگوں کے علاوہ پرویز ہود بھائی جیسے با ضمیر لوگ تھے جو ایٹمی پاگل پن کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایک انتہائی اہم مخالفت بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اختر مینگل کی جانب سے سامنے آئی۔ چند روز بعد ان کی حکومت ٹوٹ گئی۔
لگ بھگ پچیس سال بعد، پورا ملک وہ باتیں دہرا رہا ہے جو عاصمہ جہانگیر، پرویز ہود بھائی اور بایاں بازو کر رہے تھے۔مطالعہ پاکستان پڑھنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ سچی بات پچیس سال بعد سمجھ میں آتی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔