خبریں/تبصرے

شاعر احمد فرہاد راڑہ جیل منتقل، اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ قرار دیکر کیس نمٹا دیا

مظفرآباد/اسلام آباد(نامہ نگار) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے شاعر احمد فرہاد کو جوڈیشل ریمانڈ پر 24 جون تک راڑہ جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

احمد فرہاد کو ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا، پولیس نے نامکمل چالان عدالت میں پیش کیا۔ تاہم بعد ازاں عدالت نے احمد فرہاد کو 24جون تک راڑہ جیل منتقل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے 24جون کو دوبارہ عدالت پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

یاد رہے کہ عدالت نے احمد فرہاد کی درخواست ضمانت 4جون کو مسترد کر دی تھی۔ انہیں 16مئی کو مبینہ طور پر اسلام آباد سے اغواء کیا گیا تھا، جس کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ لوہی بھیر میں درج کیا گیا تھا۔

بعد ازاں 29مئی کو وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کے دوران احمد فرہاد کی گرفتاری ظاہر کر دی تھی۔ اسی دن تھانہ دھیرکوٹ میں ان کے خلاف ایک ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی۔

دھیرکوٹ میں کارسرکاری میں مداخلت کے الزام میں گرفتاری کے بعد انہیں مظفرآباد پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ جہاں ان کے خلاف پہلے سے ایک مقدمہ انسداد دہشت گردی اور دیگر دفعات کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ادھر ’ڈان‘ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی پٹیشن نمٹانے کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ حکم نامہ کے مطابق احمد فرہاد کو جبری لاپتہ/گمشدہ قرار دیا جاتا ہے تا وقتیکہ وہ اپنے گھر نہ پہنچ جائیں۔

حکم نامے کے مطابق احمد فرہاد تاحال اپنے گھر نہیں پہنچ سکے جو کہ 15 مئی سے جبری طور پر لاپتہ ہیں۔ دوران سماعت اسلام آباد پولیس، اٹارنی جنرل اور وزارت قانون کی مداخلت اور کوششوں سے لاپتہ شخص کے حوالے سے عدالت کو بتایا گیا کہ وہ تھانہ دھیر کوٹ میں گرفتار ہیں اور وہ مقدمہ نمبر 205/24 میں پولیس اسٹیشن صدر، مظفر آباد میں بھی مطلوب اور گرفتار ہیں۔

حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ ان حالات کے پیش نظر مغوی/ لاپتہ شخص کو عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا جبکہ تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مغوی کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے اور ریاستی ادارے اپنی مکمل کوشش کے باوجود انہیں بازیاب کروانے میں ناکام رہے اور بالآخر جبری گمشدگی کا سفر جو 15 مئی کو تھانہ لوہی بھیر کی حدود سے شروع ہوا اور 29 مئی تھانہ دھیر کوٹ کی حدود میں مضحکہ خیز طور پر قانونی اختیار میں داخل ہوگیا۔

حکم نامے کے مطابق تفتیشی افسر نے بتایا کہ اس وقت وہ عدالتی تحویل میں ہیں لہٰذا تمام حقائق اور ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے عدالت احمد فرہاد کی گرفتاری جن حالات میں ریکارڈ پر لائی گئی اس کو غیر قانونی عمل قرار دیتی ہے۔

حکم نامے میں مزید کہا کہ اس مقدمے کا ہم پہلو یہ بھی ہے کہ جو شخص تھانہ لوہی بھیر سے گرفتار ہوا اور اس کے جبری لاپتہ ہونے کے حوالے سے یہ عدالت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے امر کو آرٹیکل 199 کے تحت دیے گئے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے عدالتی دائرہ اختیار میں دیکھتی ہے اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لاپتہ کو کس علاقے، صوبے سے لاپتہ / بر آمد کیا گیا ہے، یا قید میں رکھا گیا ہے،کیونکہ عدالت کا اختیار اس واقعہ یعنی جبری گمشدگی سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک قابل عمل رہتا ہے جب تک لاپتہ شخص بر آمد نہ ہوجائے اور اس کے بنیادی بحالی حقوق بحال نہ ہوجائیں۔

حکم نامے کے مطابق لاء افسر نے بتایا کہ لاپتہ شخص فرہاد علی اس وقت پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقے میں عدالتی تحویل میں ہیں جبکہ آئین پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ1974 کے تحت جموں کشمیر میں رہنے والے باشندگان اور پاکستانی شہریوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنا تمام اداروں کی قانونی ذمہ داری ہے۔

ان حالات کے پیش نظر عدالت رٹ پٹیشن کو مندرجہ ذیل احکامات کے ساتھ نمٹاتی ہے:

شاعر فرہاد علی کو جبری لاپتہ/ گمشدہ قرار دیا جاتا ہے تا وقتیکہ وہ اپنے گھر نہ پہنچ جائیں۔فرہاد علی جب اپنے گھر پہنچے تو تفتیشی افسر قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ ان کا 164 کا بیان ریکارڈ کریں۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت تمام جبری گمشدگی کے مقدمات کو یکجا کر کے بڑے بینچ کے سامنے تجویز کرنے سے متعلق عدالت رجسٹرار آفس کو حکم دیتی ہے کہ وہ تمام مقدمات کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ انتظامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بڑی بینچ تشکیل کریں۔

عدالت حکم دیتی ہے کہ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کریمنل جسٹس کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس آئی، ڈی جی ملٹری انٹیلیجنس، ڈی جی انٹیلیجنس بیورو اور محکمہ انسداد دہشتگردی کے انچارج کو مدعو کرے تاکہ وہ اپنی گزارشات اور سفارشات کرینمل جسٹس کمیٹی میں زیر بحث لائیں اور تمام اداروں بشمول پولیس، وزارت داخلہ، وزارت قانون کے درمیان شہری حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی دائرہ اختیار کے اندر رہ کر جبرل گمشدگی جیسے سنگین مسئلے کا تدارک کیا جاسکے۔

ایسے تمام معاملت جن کا تعلق قومی سلامتی سے ہو ان کو ان کیمرہ سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts