فاروق سلہریا
30 اکتوبر کو امریکی ایوانِ نمائندگان (ایوانِ زیریں) میں ایک قرار داد بھاری اکثریت سے منظورکر لی گئی جس کا مقصد ترکی کے ہاتھوں آرمینیائی لوگوں کی نسل کشی (جینو سائڈ) کو تسلیم کرنا تھا۔
اس قراد داد کے حق میں 405 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں فقط تین۔
مخالفت کرنے والوں میں الہان عمر بھی شامل ہیں جو مینیسوٹا سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ الہان عمر گذشتہ چند مہینوں سے رشیدہ طلیب اور الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز کے ہمراہ خبروں میں رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کی نسل پرستانہ مہم تھی۔ ان تینوں کے لئے ٹرمپ کی شرمناک مہم کے خلاف دنیا بھر سے ترقی پسند حلقوں نے اظہارِ یکجہتی کیا۔ روزنامہ جدوجہد نے بھی اس مسئلے پر بات کی۔
اسے منافقت کے سوا کیا کہا جائے کہ الہان عمر کو امریکہ میں نسل پرستی تو نظر آتی ہے یا فلسطین پر بھی وہ اسرائیل کی مذمت کرتی نہیں تھکتیں مگر رجب طیب اردگان نے کردوں پر فوج کشی کی تو الہان عمر کی زبان گنگ۔
اسی طرح اب امریکی پارلیمنٹ نے آرمینیا کے لوگوں کے جینو سائڈ کو تسلیم کیا تو الہان عمر کا ووٹ مخالفت میں۔
اس مخالفت کی وجہ انہوں نے سی این این کو یہ بتائی ہے کہ یہ قرار داد سیاسی بنیادوں اور عالمی سیاست کے تناظر میں پیش کی گئی ہے، امریکہ کو غلاموں کی تجارت اور امریکہ کی مقامی آبادیوں کے قتل عام کو بھی تسلیم کرنا چاہئے۔
اس میں شک نہیں کہ یہ قرار داد دوہرے معیار کو ظاہر کرتی ہے مگر الہان عمر امریکی منافقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے، مندرجہ بالا موقف اختیار کرتے ہوئے بھی تو اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ دے کر اپنے اصول پسند ہونے کا اظہار کر سکتی تھیں۔
آرمینیا کا کہنا ہے کہ 23-1915ء کے دوران، جب سلطنتِ عثمانیہ ٹوٹ رہی تھی اور موجودہ ترک ریاست جنم لے رہی تھی، تو پندرہ لاکھ آرمینیائی باشندوں کا قتل ہوا۔ سویت روس سے علیحدگی کے بعد سے، آرمینیا کی ریاست اس جینو سائڈ کو تسلیم کروانے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ آرمینیا نے اسی لئے ترکی سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کئے۔ ترکی اس جینو سائڈ کو اسی طرح تسلیم کرنے سے منکر ہے جیسے پاکستان بنگلہ دیش سے معافی مانگنے پر تیار نہیں۔
انسانیت کے خلاف جرائم کو تسلیم کیا جانا بہت ضروری ہے تاکہ ایسے جرائم دوبارہ نہ ہوں۔ آرمینیا کے خلاف جرائم کو تسلیم کرنے اور اس پر معافی مانگنے کا مطلب ہے کہ ترکی کردوں کا قتل عام نہیں کر سکتا۔ اگر ترکی کی ریاست اور لوگ آرمینیا کے مسئلے پر خاموش رہیں گے تو اس کا مطلب ہے وہ کردوں کے مسئلے پر بھی آواز نہیں اٹھائیں گے۔ پنجاب مشرقی پاکستان پر بھی خاموش تھا تو اسے بلوچستان میں بھی صرف ’بدمعاش‘ سردار ہی دکھائی دیتے ہیں۔
نہ صرف آرمینیا بلکہ دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کا فرض ہے کہ وہ آرمینیا کی اس جدوجہد میں اس کی حمایت کریں۔ یہ مذہب نہیں، انسانیت کا مسئلہ ہے۔ جب الہان عمر جیسے لوگ ایک ظلم پر تو شور مچاتے ہیں اور دوسرے ظلم پر آنکھیں موند لیتے ہیں تو ظلم کے خلاف جدوجہد کو نقصان پہنچتا ہے۔
الہان عمر نے جو کیا منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ وہ اپنی منافقت کا دفاع یہ کہہ کر نہیں کر سکتیں کہ امریکہ بھی تو منافقت کر رہا ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔