دنیا

الجولانی جہادی بھی، نیو لبرل بھی: ایچ ٹی ایس مزدور دشمن، عورت مخالف گروہ

یوسف داہر

بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کا مستقبل بہت سے چیلنجوں سے گھرا ہوا ہے۔ خاص طور پر اس کی اقتصادی بحالی اور دوبارہ ترقی کے حوالے سے بہت زیادہ چیلنجز ہیں۔ پہلے سے ہی تعمیر نو کی لاگت کا تخمینہ 250ارب ڈالرسے 400 ارب ڈالر کے درمیان لگایا گیا ہے، اور عالمی پابندیاں بہتری کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

پابندیاں ہٹانے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے کیونکہ ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) آج کے شام میں کلیدی عسکری اور سیاسی کردارہے، لیکن وہ اب بھی امریکہ، اقوام متحدہ، ترکی،یورپی ریاستوں سمیت بہت سی طاقتوں کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کی درجہ بندی میں شامل ہے۔علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کی طرف سے ایچ ٹی ایس کے نقطہ نظر میں تبدیلی کے باوجود ممکنہ طور پر ضمانتوں کا مطالبہ کیا جائے گا۔

غیر یقینی اور غیر مستحکم حالات

شام میں محفوظ اور مستحکم اقتصادی صورت حال کی عدم موجودگی مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے میں شدید رکاوٹ ہے۔ 2011 سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) درحقیقت بہت کم اور زیادہ تر ایران اور روس تک ہی محدود ہے۔ خلیجی ممالک اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے ملک میں کچھ سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی لے سکتے ہیں، لیکن ایچ ٹی ایس جو کردار اس وقت ادا کر رہا ہے وہ رکاوٹ ہو سکتا ہے۔ اسے متعدد علاقائی ریاستیں منفی طور پر دیکھتی ہیں۔

مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد کے سفارتی مشیر انور گرقاش نے کہا کہ”اقتدار میں آنے والی نئی قوتوں کی نوعیت اور اخوان المسلمین اور القاعدہ کے ساتھ ان کی وابستگی کافی تشویشناک اشارے ہیں۔“

مزید برآں شامی پاؤنڈ کا عدم استحکام ایک اہم مسئلہ ہے۔ حکومت کے خاتمے کے بعد بلیک مارکیٹ میں اس کی قدر میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہواہے اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں 15000شامی پاؤنڈ پر مستحکم ہونے کے باوجود ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ کرنسی کے استحکام کی کمی ملک میں سرمایہ کاری پر ممکنہ تیز اور درمیانی مدت کے منافعوں کی کشش کو ختم کر دیتی ہے۔

شمال مغرب کے ان خطوں کے بارے میں سوالات ہیں جو شامی کرنسی کی شدید گراوٹ سے تباہ ہونے والی منڈیوں کو مستحکم کرنے کے لیے کئی سالوں سے ترک کرنسی ’لیرا‘استعمال کر رہے ہیں۔ اگر استحکام حاصل نہیں ہوتا تو ان علاقوں میں شامی پاؤنڈ کو مرکزی کرنسی کے طور پر بحال کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

کام ہے لیکن پیسے نہیں

شام میں انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورکس کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پیداوار کی بلند قیمت، اہم اجناس کی قلت اور توانائی کے وسائل (خاص طور پر ایندھن، تیل اور بجلی) اضافی مسائل ہیں۔ شام کو بھی اہل افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے اور ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جو لوگ ہنر مند ہیں، وہ واپس آئیں گے یا نہیں۔

یہاں تک کہ زیادہ تر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں پر مشتمل پرائیویٹ سیکٹر،جس کی محدود صلاحیتیں ہیں، کو بھی 13 سال سے زیادہ جنگ کے بعد بہت زیادہ جدید کاری اور تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ریاستی وسائل بھی بہت زیادہ محدود ہیں، جو معیشت اوربالخصوص پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری میں بھی رکاوٹ ہیں۔

90 فیصدآبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جس کی وجہ سے ان کی قوت خرید بہت کمزور ہے۔ اس وجہ سے داخلی کھپت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شام میں ملازمتوں کی کمی نہیں ہے،مگرلوگوں کو ان کی روزمرہ ضروریات پورا کرنے کے لیے اتنی تنخواہ نہیں دی جاتی۔ اس تناظر میں شامی زندہ رہنے کے لیے ترسیلات زر پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرتے رہے ہیں۔

نئی حکومت کے کچھ عہدیداروں، جیسے احمد الشرع (ابو محمد الجولانی) نے اعلان کیا کہ وہ آنے والے دنوں میں مزدوروں کی اجرت میں 400 فیصد اضافہ کرنے کے لیے کام کریں گے، جس سے کم از کم تنخواہ75ڈالر ماہانہ کے برابرہو جائے گی۔۔۔اگرچہ یہ درست سمت میں ایک قدم ہے، لیکن یہ لوگوں کے لیے زندگی کے بحران کے جاری اخراجات کے دوران اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ درحقیقت میڈیا آؤٹ لیٹ ’کاسیون‘نے اکتوبر 2024 میں اندازہ لگایا تھا کہ دمشق میں پانچ افراد پر مشتمل شامی خاندان کے رہنے کی اوسط قیمت تقریباً1077ڈالر ماہانہ تک پہنچ گئی ہے۔ کم از کم قیمت بھی 673ڈالر ماہانہ تک پہنچ چکی ہے۔

ان سب سے بڑھ کر شام میں غیر ملکی طاقتوں کا اثر و رسوخ اب بھی خطرے اور عدم استحکام کا باعث ہے، جیسا کہ اسرائیل کے تازہ حملے اور فوجی انفراسٹرکچر کی مسلسل تباہی نے ظاہر کیا ہے۔ شام کے شمال مشرق بالخصوص کرد اکثریتی آبادی والے علاقوں میں ترکی کے مسلسل حملوں اور دھمکیوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔

ملک میں بے یقینی کے سمندر کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ایچ ٹی ایس سمیت اہم سیاسی کرداروں کی اکثریت کے درمیان متبادل سیاسی اقتصادی پروگرام کا فقدان ہے۔

ایچ ٹی ایس کے پاس نیو لبرل معاشی نظام کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ پچھلی حکومت میں موجود کرونی(crony) سرمایہ داری (سرمایہ داروں اور حکومتی ذمہ داروں کے گٹھ جوڑ پر مبنی نظام)کی حرکیات اور شکلوں کی طرح ہی یہ گروپ کاروباری نیٹ ورکس (پرانی اور نئی شخصیات پر مشتمل) کے درمیان معاملات کو فروغ دینے کے لیے متحرک ہے۔ پچھلے سالوں میں شام کی سالویشن حکومت (ادلب میں ایچ ٹی ایس کی سول انتظامیہ)نے نجی شعبے کی ترقی اور ایچ ٹی ایس اور الجولانی کے قریبی کاروباری ساتھیوں کی حمایت کی ہے۔

دریں اثنا، زیادہ تر سماجی خدمات، خاص طور پر صحت اور تعلیم، این جی اوز اور آئی این جی اوز کے ذریعے فراہم کی گئیں۔

دمشق چیمبر آف کامرس کے صدر باسل حموی نے کہا کہ حکومت کے خاتمے کے بعد ایچ ٹی ایس کی جانب سے مقرر کردہ شام کی نئی حکومت نے کاروباری رہنماؤں سے کہا کہ وہ آزاد منڈی کا ماڈل اپنائیں گے اور ملک کو عالمی معیشت میں ضم کریں گے۔ حموی اسد حکومت کے زوال سے چند ہفتے قبل نومبر 2024 میں اپنے موجودہ عہدے پر ’منتخب‘ ہوئے تھے۔ وہ فیڈریشن آف سیرئین چیمبرز آف کامرس کے صدر بھی ہیں۔

پرانی حکومت کے مختلف اقتصادی ایوانوں کے نمائندے اب بھی اپنے عہدوں پر براجمان ہیں۔ بالآخرایچ ٹی ایس کی آمریت کے ساتھ ملا ہوا یہ نیو لبرل معاشی نظام ممکنہ طور پر سماجی و اقتصادی عدم مساوات اور شامی آبادی کی مسلسل غربت کا باعث بنے گا، جو کہ 2011 کی بغاوت کی کچھ اہم وجوہات تھیں۔

ایچ ٹی ایس سے وابستہ نئے وزیر اقتصادیات نے یہ کہنے کے چند دنوں بعد اس نیو لبرل رجحان کا اعادہ کیا کہ ”ہم سوشلسٹ معیشت سے۔۔۔ایک آزاد مسابقتی معیشت کی طرف جائیں گے۔“ پچھلی حکومت کو سوشلسٹ قرار دینے کی مکمل غلط فہمی سے قطع نظر، وزیر کا طبقاتی رجحان اس بات پر واضح طور پر جھلکتا تھا کہ”نجی سیکٹر۔۔۔ شام کی معیشت کی تعمیر میں ایک موثر شراکت دار اور معاون ثابت ہو گا۔“ ملک کی مستقبل کی معیشت میں مزدوروں، کسانوں، سرکاری ملازمین، یا ٹریڈ یونینوں اور پیشہ ورانہ انجمنوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

اسی طرح ایچ ٹی ایس حکام کی جانب سے معاشرے میں خواتین کے کردار اور بعض شعبوں میں ان کی کام کرنے کی صلاحیتوں کے حوالے سے ایک رجعتی بیان بھی دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر 16 دسمبر کو ایک انٹرویو میں ایچ ٹی ایس کے رکن اور پولیٹیکل افیئرز آف کمانڈ آف ملٹری آپریشنز کے ترجمان عبیدہ ارناوت نے کہا کہ ’خواتین کے کردار کو اس کے مطابق ہونے چاہیے جو وہ کر سکیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم کہتے ہیں کہ ایک خاتون کو وزیر دفاع ہونا چاہیے، تو کیا یہ اس کی فطرت اور حیاتیاتی ساخت کے مطابق ہے؟ بلاشبہ ایسا نہیں ہوتا۔“

بالآخر تعمیر نو کا عمل ان سماجی اور سیاسی قوتوں سے جڑا ہوا ہے جو ملک کے مستقبل میں کردار ادا کریں گی اور آپس میں طاقت کے توازن میں حصہ لیں گی۔

حکومت کے خاتمے سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے، جو چیلنجوں اور تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ ماضی میں ایچ ٹی ایس اورایس این اے کی پالیسیوں پر نظر ڈالی جائے تو انہوں نے ایک ڈیموکریٹک سپیس کو ترقی دینے کی کبھی کوشش نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس کیا۔ ایچ ٹی ایس خاص طور پر ملک پر اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ جیسا کہ الشرع کی جانب سے ادلب میں سالویشن حکومت(ایس ایس جی) کے افرادپر مشتمل ایک نگران حکومت کی تقرری کی ہے، یا ایچ ٹی ایس سے وابستہ مختلف علاقوں کے لیے گورنروں کی نامزدگی کی گئی ہے۔

ایک جمہوری اور ترقی پسند بلاک

جمہوری اور ترقی پسند مطالبات کے لیے لڑنے والے مقبول طبقات کی صرف سیلف آرگنائزیشن ہی حقیقی آزادی کی راہ ہموار کرے گی۔ یقینا اس کا انحصار جنگی تھکاوٹ سے لے کر غربت اور سماجی عدم استحکام تک بہت سی رکاوٹوں پر قابو پانے پر ہوگا۔

جمہوریت، سماجی انصاف، مساوات، کرد خود ارادیت،خواتین کی آزادی جیسے مطالبات کو آگے بڑھانے کے لیے ملک کے استحصال کا شکار طبقات اور مظلوموں کے درمیان یکجہتی پیدا کرنی ہو گی۔ اس مقصد کے لیے شام کے ترقی پسندوں اور جمہوریت پسندوں کو ٹریڈ یونینوں سے لے کر حقوق نسواں کی تحریکوں، کمیونٹی گروپوں اور قومی ڈھانچوں تک مقبول تنظیموں کی تعمیر اور تعمیر نو کرنا ہوگی۔اس تناظر میں خود مختار اور بڑے پیمانے پر مزدور تنظیموں کی تعمیر آبادی کے حالات زندگی اور کام کرنے کے حالات کو بہتر بنانے اور عام طور پر جمہوری حقوق اور سماجی انصاف اور مساوات پر مبنی معاشی نظام کے حق میں جدوجہد کرنے کے لیے ضروری ہو گی۔

اسد آمریت کے خاتمے کے بعد ایک بہتر مستقبل کی امید فضا میں ہے، لیکن اقتصادی بحالی شامیوں کی زندگیوں کی بہتری کے لیے ایک اہم چیلنج بنی ہوئی ہے۔ ساختی اقتصادی مسائل سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہوگی، لیکن ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچنے کے لیے شام کی مستقبل کی سیاسی معیشت میں طویل مدتی تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ یہ سب شامیوں کی نیچے سے جدوجہد کو دوبارہ بنانے کی صلاحیت سے منسلک ہے۔ کم از کم اب اس کا موقع موجود ہے۔

(بشکریہ: نیو عرب، ترجمہ: حارث قدیر)

Yousuf Dahir
+ posts