حارث قدیر
پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر میں بینک آف آزاد جموں کشمیر (بی اے جے کے) کے نام سے قائم ریاستی بینک کے شیڈول ہونے کی راہ میں ایک اور رکاوٹ کے دور ہونے اور بینک کے ایک نجی بینک کے ساتھ معاہدے سے متعلق مختلف خبریں اور افواہیں لوگوں کو کنفیوز کر رہی ہیں۔
درحقیقت عدالتی حکم اور فیصل بینک سے معاہدہ دو ایسے اقدام ہیں جو اتفاق سے ایک ہی وقت میں ہوئے ہیں۔ بینک کو پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے ساتھ شیڈول ہونے کے لیے شرائط پوری کرنی ہوتی ہیں۔ ان شرائط میں ایک مخصوص حد تک ڈپازٹس، برانچز، جدید بینکنگ کے تقاضے پورے کرنے سمیت دیگر شرائط شامل ہوتی ہیں۔
بی اے جے کے نے تقریباً تمام ضروری شرائط پوری کر رکھی ہیں۔ 86 برانچوں کے ساتھ یہ بینک اپنی سروسز فراہم کر رہا ہے۔ تاہم یہ بینک ایک پرانے سافٹ ویئر کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ جدید کور بینکنگ سافٹ ویئر کو اپنانے کے بعد یہ بینک آن لائن بینکنگ اور اے ٹی ایم جیسی سہولیات فراہم کرنے کے قابل ہوجائے گا اور اسٹیٹ بینک کے ساتھ شیڈول ہونے کا راستہ بھی تقریباً ہموار ہوجائے گا۔
رواں سال کے آغاز میں جدید کور بینکنگ سافٹ ویئر خریدنے کیلیے جب بولی دی گئی تو اس پر عدالت العالیہ سے حکم امتناعی لے لیا گیا تھا۔ تاہم رواں ماہ عدالت عظمیٰ نے حکم امتناعی خارج کر دیا ہے اور اب بینک آف اے جے کے نئے سافٹ ویئر کی خریداری کا معاملہ آگے بڑھا سکتا ہے۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ بینک 6 ماہ کے عرصے میں نئے سافٹ ویئر پر منتقل ہوجائے گا اور آن لائن بینک و اے ٹی ایم کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک کے قواعد کے مطابق اپ گریڈ ہوجائے گا۔
عدالتی حکم امتناعی کی وجہ سے بینک نے ملازمین کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کے نئے نظام کو اپنانے کے لیے فیصل بینک سے ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے، یعنی ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق فیصل بینک ملازمین کی تنخواہوں کی نئے نظام کے تحت ادائیگی میں بینک آف اے جے کے کو سہولیات فراہم کرے گا۔ نیا بینکنگ نظام اپنانے کے بعد بینک آف اے جے کے یہ سہولت خود فراہم کرنے کے قابل ہوجائے گا اور فیصل بینک سے یہ شراکت داری ختم ہوجائے گی۔
بینک ذرائع کا کہنا ہے کہ اب بینک کے شیڈول ہونے کی تقریباً تمام رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں۔ 6 ماہ میں جدید بینکنگ نظام رائج ہوجائے گا اور اگلے 6 ماہ کے اندر بینک شیڈول ہونے کے بھی پورے امکانات ہیں۔
ریاستی بینک کے پاکستان کے اسٹیٹ بینک سے شیڈول ہونے کے بعد اس خطے کے شہریوں کو کیا فائدہ ہوگا، یہ سوال اکثر دہرایا جاتا ہے۔
بینک شیڈول ہونے کا مطلب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ریگولیشن میں آنا ہے۔ جس کے بعد یہ بینک دیگر تمام سرکاری و نجی بینکوں کی طرح جدید بینکنگ سہولیات فراہم کر سکے گا۔ پاکستان سمیت بیرون ملک برانچیں بھی قائم کر سکے گا۔
اس کے علاوہ جموں کشمیر کے شہری اگر چاہیں تو اس بینک میں اپنی رقوم رکھ سکتے ہیں۔ حکومت اس میں موجود ڈیپازٹس سے اس خطے کے اندر سرمایہ کاری کے لیے کارپوریٹ قرضوں کی اجرائیگی یقینی بنوا سکتی ہے۔ بینک کو حاصل ہونے والے منافع سے حکومتی آمدن بڑھ سکتی ہے۔ یہاں پاکستان کے 30 نجی بینکوں کی 565 سے زائد شاخیں موجود ہیں جن میں 650 ارب روپے سے زائد رقوم اس خطے کے شہریوں کی موجود ہیں۔
یہ نجی بینک ان رقوم سے کاروبار پاکستان میں کرتے ہیں اور ظاہر ہے منافع بھی پاکستان میں ہی منتقل کرتے ہیں۔ یوں اتنی بڑی رقوم بینکوں کے حوالے کرنے کے بعد محض 5 ہزار ملازمتوں کی صورت میں ہی اس خطے کے لوگوں کو ریٹرن ملتا ہے۔
تاہم یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بینک آف اے جے کے بھی شیڈول ہونے کے بعد ضروری نہیں کہ جموں کشمیر کے اندر سرمایہ کاری کرے، یا یہاں کارپوریٹ قرضے فراہم کرے۔ سرمایہ کاری چونکہ وہاں کی جاتی ہے جہاں زیادہ منافع یا ریٹرن ملے۔ قرضے بھی وہاں دیے جاتے ہیں جہاں ان پر زیادہ ریٹرن ملے اور اصل رقم بھی واپس ملنے کے زیادہ امکانات ہوں۔
یوں اگر حکومت با اختیار اور عوام کی نمائندہ ہو تو وہ نجی بینکوں کو بھی پابند کر سکتی ہے کہ وہ یہاں سے حاصل کردہ ڈیپازٹس کا کم از کم 25 فیصد ریاست کے اندر کارپوریٹ قرضے دیں، کمائے گئے منافعوں کا ایک خاص تناسب یہیں پر خرچ کریں اور کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی کے طور پر بھی یہاں سرمایہ کاری کریں۔
اسی طرح ایک عوام کی نمائندہ اور بااختیار حکومت ہی یہ یقینی بنا سکتی ہے کہ ریاستی بینک میں موجود رقوم کو ریاست کے اندر سرمایہ کاری کرنے کے لیے استعمال کیا جائے اور حاصل ہونے والے منافع کو عوامی فلاحی منصوبوں پر خرچ کرنے کے اقدامات کیے جا سکیں۔
غیر ملکی زرمبادلہ کو اس خطے میں لانا بینک آف اے جے کے کے شیڈول ہونے سے بھی ممکن نہیں ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس ہی آئے گا۔ غیر ملکی زرمبادلہ یعنی آسان لفظوں میں اوورسیز کشمیریوں کے بھیجے گئے ڈالروں سے اس خطے کے لوگوں کو مستفید کرنے اور یہاں سرمایہ کاری کرنے کے لیے مالیاتی خودمختاری درکار ہوگی۔
اس مقصد کے لیے اس خطے کا الگ اسٹیٹ بینک قائم کرنا ضروری ہے، جو اس خطے کے اندر کام کرنے والے تمام بینکوں، بینکنگ کے نظام اور غیر ملکی زرمبادلہ کو ریگولرائز کر سکے۔ تب ہی اوورسیز کشمیریوں کی جانب سے بھیجے گئے غیر ملکی زرمبادلہ کو یہاں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
اس زرمبادلہ کو استعمال میں لا کر جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع پیداوار کی درآمد کرتے ہوئے بنیادی صنعتی ڈھانچہ قائم کیا جا سکتا ہے، سیاحت کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے اور پن بجلی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کر کے بڑے پیمانے پر بجلی ایکسپورٹ کی جا سکتی ہے۔
محض بینک آف اے جے کے کے شیڈول ہونے سے یہ سارے اقدامات نہیں ہوسکتے۔ اس لیے اس خطے میں جدوجہد کرنے والوں کو ابھی طویل لڑائی لڑنی ہے۔ اس لڑائی کا اگلا قدم ایک با اختیار اور آئین ساز اسمبلی کے قیام کے لیے جدوجہد کو استوار کرنا ہے، جو مالیاتی خودمختاری کی بھی بنیاد رکھ سکتی ہے اور تعلیم، علاج، روزگار کی فراہمی سمیت ایک جدید معاشرے کی بنیادیں رکھنے میں ایک اگلا قدم ہو سکتی ہے۔