فاروق طارق
وقت بدلتے کب وقت لگتا ہے، لگتا تھا سب کچھ کنٹرول ہو گیا ہے، اپوزیشن راہنماؤں کو بیماری کی وجہ سے یا باہر جانے دیا گیا یا انہیں ضمانتیں مل گئیں تھیں۔ سوچا تھا”اب کچھ عرصہ آرام سے حکومت کریں گے، اب کچھ نجکاری ہو گی، روپیہ ”مستحکم“ ہو گیا ہے، معیشت کی راہیں درست سمت پر ہیں، پاکستان سرمایہ کاری کے لئے مثبت جگہ کے طور پر چھلانگیں مار کر آگے بڑھ رہا ہے، کشمیر پر بھی شور کم ہو گیا ہے اور بزنس معمول پر آگیا ہے۔“
پھر فیض انٹرنیشنل فیسٹیول میں عروج اورنگ زیب کے لال لال نعرے لاکھوں میں مقبول ہو گئے اور’طلبہ یکجہتی مارچ‘ میں ملک بھر کے طلبہ کی بھرپور شرکت اور لاہور میں ہزاروں کی ریلی ان کے لئے تعجب کا باعث بن گئی۔ ”اتنے لوگ کہاں سے آگئے“ عام طور پر ان کا کمنٹ تھا۔ بوکھلاہٹ میں بغاوت کا مقدمہ بھی کیا گیا۔
مگر یہ مطمئن تھے کہ اب کون ہے جو ان کو للکارے گا۔
پھر سابق جنرل مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ تو حیران کن بن گیا بہتوں کے لئے خوشگوار حیرت اور کچھ کے لئے ملک دشمنی اور ملک کے دشمنوں کے ہاتھوں کھیلنے کے مترادف تھا۔ ہم نے تو دو روز پہلے ہی ان صفحات پر لکھا تھا”ابھی تو آغاز ہے، انتہا دیکھنی باقی ہے۔“ اور اب 19 دسمبر کو تفصیلی فیصلہ آنے پر ”انتہا“ کی جانب بڑھتے قدم نظر آنے لگے ہیں۔
جسٹس وقار سیٹھ نے کچھ زیادہ ہی لکھ دیا اور اب تو توپوں کا رخ ایک سٹنگ جج وقار سیٹھ کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ مولویوں کو کہا گیا کہ اس فیصلے کو غیر اسلامی قرار دیں، مولوی اشرفی سے لیکر مفتی نعیم جیسوں کی کمی نہیں جو ایک اشارے پر کسی کو بھی غیر اسلامی کے القاب نواز سکتے ہیں۔
عمران خان اور چیف آف دی آرمی سٹاف کی تفصیلی ایمرجنسی میٹنگ کے بعد اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ جج وقار سیٹھ کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں جائیں گے اور جو کچھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کیا گیا لوگ اس کو بھی بھول جائیں گے۔
اب تو یہ ایک کھلی جنگ لگ رہی ہے۔ ایک جانب حکمران جماعت ریاست کی مائٹی طاقت کے ساتھ خاص ججوں کو ٹارگٹ کرنے کا پلان کئے ہوئے ہے اور دوسری جانب بکھری اپوزیشن ایک آدھ بیان پر ہی گزارا کرنا چاہتی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کچھ کرنے کا اشارہ دیا ہے باقی تو ابھی خاموش ہیں۔ وہ ابھی ڈاکٹروں کے ساتھ ایڈونچرسٹ لڑائی میں لگنے والے زخموں سے ہی سنبھلے نہیں ہیں اور زخم ابھی تازہ ہیں۔ کریڈیبیلٹی بھی ابھی کافی نیچے گری ہوئی ہے، کچھ کر سکیں گے یہ تو کہا نہیں جا سکتا مگر اب واضح ہے کہ ریاست عدلیہ کے آؤٹ آف کنٹرول ججوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائے گی۔ یہ تیزی سے بدلتے حالات کا وقت ہے۔
جج سیٹھ وقار کے کچھ فقروں پر سیخ پا ہونے والے اسی سوچ کے حامی ہیں جو افغانستان کے سابق صدر نجیب اللہ کو کابل کی سڑکوں پر پھانسی چڑھانے پر خوشیوں سے بغلیں بجاتے تھے۔ یہ تو ابھی لکھا گیا ہے، اپیلیں باقی ہیں مگر اُدھر تو نجیب اللہ کو کسی عدالتی حکم کے بغیر صدارتی محل سے نکال کر ہلاک کر کے گھسیٹا گیا تھا اور پھر چوک میں پھانسی دی گئی تھی۔ نجیب اللہ کی سرعام پھانسی کا جشن منانے والے اب ذرا شرمندہ شرمندہ ہیں۔
وقت وقت کی بات ہے عمران خان کی تقریریں جن میں وہ جنرل پرویز مشرف کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں اب سوشل میڈیا پر وائرل ہیں مگر اب جب ان کے ایک دیرینہ مطالبے کو انصاف کے ترازو میں چھ سال تول کر پورا کیا گیا ہے تو اس کی بھرپور مخالفت کی جا رہی ہے اور اب تو اس جج پر مقدمہ دائر کرنے کی بھی ٹھان لی گئی ہے۔
آئی ایس پی آر اسے فوج پر حملے سے گردان رہی ہے۔ ایسے کہا جا رہا ہے جیسے کسی حاضر سروس جرنیل کے خلاف فیصلہ آیا ہو۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل جو وردی اتار کر سویلین صدر بننے میں پورا زور لگاتا رہا ہواسے اب دوبارہ وردی پہنائی جا رہی ہے۔
لیگل فریم آرڈر کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کو تیار کیا گیا تھا کہ وہ اگر انہیں ایک سویلین صدر کے طور پر منظور کر لیں گے تو وہ رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لے کر وردی اتار دیں گے جو کوئی دور کی بات نہیں ہے مگر اس سابق سویلین صدر کو آئین کی پامالی پر اگر اب سزا سنائی گئی ہے تو اسے اب باوردی جنرل پر حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ وقت وقت کی بات ہے، نظریات تو اس طبقے اور اسکے رکھوالوں کے لئے اقتدار میں آنے اور رہنے سے منسلک ہیں۔ مگر وقت بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔