عامر کریم
یہ ظلمتوں کے روز و شب
اذیتوں کے سلسلے
رکے نہیں
تھمے نہیں
یہ زندگی کو نوچنے کی راہ پہ ہیں گامزن
تو کیوں کریں قیام ہم
تو کس لئے ہوں خیمہ زن
تھکن کی گرد جھاڑ کر
وقت کو پچھاڑ کر
چلو چلیں
بڑھے چلیں
کہ زندگی اسی میں ہے
یہ بستیاں
یہ گھر گرہستیاں
یہ قافلوں کی موت ہیں
قدم اٹھیں تو زیست کے ہیں نقش پا
قدم رکے تو موت کی آہ و بکا
چلو چلیں
بڑھے چلیں
کہ روشنی کی راہ میں
زندگی کی چاہ میں
جو تیرگی کے سانپ ہیں
انہیں مار دیں
کہ زندگی کو زندگی پہ وار دیں