حارث قدیر
پاکستانی زیر انتظام جموںکشمیر کے لائن آف کنٹرول پر واقع علاقے نیلم ویلی میں پاک بھارت گولہ باری سے آبادیوںکو بچانے کےلئے تعمیر کئے گئے حفاظتی بنکرز میں سامنے آنے والے سماجی مسائل پر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو ایک رپورٹ شائع ہوئی جسے نہ صرف پاکستان کے زیر انتظام جموںکشمیر کی حکومت کے وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر نے گزشتہ روز جھوٹ کا پلندرہ قرار دیکر مسترد کیا بلکہ امریکی جریدے کو بھارتی زیر انتظام جموںکشمیر میںہونے والے بھارتی فورسز کے مظالم پر توجہ دینے کامشورہ بھی دیا۔
محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیراعظم فاروق حیدرنے یہ بھی کہا کہ پاکستانی زیرانتظام کشمیر میںخواتین کو بلند مرتبہ دیا جاتا ہے اور انکا ہر ممکن تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی زیر انتظام جموںکشمیر کی تیس فیصد آبادی کنٹرول لائن پر واقع ہے اور اخبار نے بھارتی فورسز کی فائرنگ سے انکے جانی و مالی نقصانات سے متعلق رپورٹ کرنا بھی گوارہ نہیںکیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میںکیا سماجی مسائل اجاگر ہوئے؟
امریکہ کے معروف جریدے نیو یارک ٹائمز نے یہ رپورٹ پندرہ مئی کو شائع کی۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ حکومتی سطحپر بنکرز کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے مقامی متمول افراد نےکمیونٹی بنکرز تعمیر کروا رکھے ہیں۔ جبکہ کنٹرول لائن پر پاک بھارت فائرنگ کے دوران جب مقامی آبادیوںکو خطرے کے سائرن بجا کر بنکرز میں جانے کی ہدایت کی جاتی ہے تو تنگ بنکرز میںخواتین کو ہراساںکرنے کے واقعات رونما ہونا ایک معمول ہے۔
رپورٹ میںیہ بھی واضح کیا گیا کہ بھارتی فائرنگ کا نشانہ بننے سے محفوظ رکھنے والے ان بنکرز میںاب خواتین اپنی عزت کو محفوظ نہیںسمجھتیں اور فائرنگ و گولہ باری کے دوران بنکرز کی بجائے گھروںمیں ہی گولوںکا نشانہ بننے کو ترجیح دیتی ہیں۔
رپورٹ میں مختلف متاثرہ خواتین کے مختصر انٹرویوز بھی شامل کئے گئے ہیں۔ جن میںسے ایک ایسی ماں کی کہانی بھی لکھی گی ہے جس کی تیرہ سالہ بیٹی کو بنکر کے مالک نے مبینہ طور پر خنجر کی نوک پر جنسی ہوس کا نشانہ بنایا اور وہ حاملہ ہونے کے بعد کم عمر ہونے کی وجہ سے بچے کی پیدائش کے دوران فوت ہو گئی۔
رپورٹ میںیہ بھی بتایا گیا کہ اکثر خواتین اپنے ساتھ بیتے ایسے درد ناک لمحات کے بارے میںکسی کو بتاتی نہیںہیں، جس کی بڑی وجہ انہیں سماجی نفرت کا سامنا اور جنسی ہوس کا نشانہ بنانے والے شخص کے ساتھ بیاہ دیئے جانے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بچے کی پیدائش کے دوران موت کا شکار ہونے والی کم عمر لڑکی کو بھی ایک جرگے کے فیصلہ کے نتیجے میںاس کا ریپ کرنے والے کے ساتھ بیاہ دیا گیا تھا۔
رپورٹ میںیہ بھی بتایا گیا کہ پاکستانی زیر انتظام جموںکشمیر میں رواں سال جنوری سے اب تک گولہ باری کے واقعات میںنو افراد ہلاک اور ساٹھ زخمی ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان نے حفاظتی بنکروں کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ گزشتہ موسم گرما میں پاکستانی فوج کی ابتدائی مالی اعانت سے اب تک 70 بنکرز تعمیر کئے گئے ہیں۔ جو مطلوبہ تعداد سے بہت کم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی عہدیداروں نے انٹرویوز میںبتایا کہ ایک لاکھ دس ہزار گھرانوںکو حفاظتی پناہ گاہوںکی ضرورت ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموںکشمیر کی حکومت نے بھی سب سے زیادہ متاثرہ علاقے وادی نیلم میں کچھ بنکرز کی تعمیر کےلئے ایک لاکھ بیس ہزار ڈالرز فراہم کئے ہیں، تاہم زیادہ غیر محفوظ علاقوںمیں ابھی تک ایک ڈالر بھی نہیںدیکھا گیا۔
پاکستانی زیر انتظام جموںکشمیر کے ایڈیشنل چیف سکریٹری سید آصف حسین نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ حفاظتی بنکرز کی تعمیر کےلئے ہمارے اندازے کے مطابق 34 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔
سماجی مسائل پر مبنی رپورٹ کو فوج سے کیوں جوڑ دیا گیا؟
کنٹرول لائن پر بسنے والے شہریوں کو پاک بھارت فورسز کے مابین گولہ باری کے دوران پہنچنے والے نقصانات سے متعلق اکثر اوقات خبریں قومی و عالمی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں، گزشتہ عرصہ میں بھی وائس آف آمریکہ اور برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن( بی بی سی) نے گولہ باری سے متاثر ہونےوالے علاقوںپر تفصیلی رپورٹس شائع کی ہیں۔ لیکن گزشتہ سات دہائیوں سے اس خوف کی کیفیت میںبسنے والے لاکھوں انسانوںکو کس طرحکے سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس جانب میڈیا اداروںکی جانب سے کم ہی توجہ دی گئی ہے۔
نیویارک ٹائمز کی مذکورہ بالا رپورٹ میں کنٹرول لائن کی فائرنگ رینج کے علاقوںمیں بسنے والے شہریوںبالخصوص خواتین کو درپیش سماجی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جسے کچھ لوگوںنے پاکستانی فوج کے خلاف رپورٹ قرار دیتے ہوئے نیویارک ٹائمز سمیت رپورٹ کرنے والے تین صحافیوںکے خلاف زہر آلود پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے۔
پاکستان میںحکمران جماعت تحریک انصاف کے مقامی رہنماؤں، جعلی سوشل میڈیا آئی ڈیز اور کچھ حکومتی شخصیات نے مذکورہ رپورٹ کو امریکہ اور بھارت کے ایجنڈے کے تحت پاک فوج کے خلاف ایک منظم مہم کا حصہ قرار دیتے ہوئے صحافیوں کی ٹرولنگ شروع کر رکھی ہے۔ وزیراعظم فاروق حیدر کے بیان نے مذکورہ ٹرولز کو تقویت بخشی ہے۔ جو رپورٹ کرنے والے صحافیوںکو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچانے کا موجب بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ عمل صحافیوںکو پیشہ وارانہ کام سے روکنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
تاہم سوشل میڈیا پر مذکورہ رپورٹ کی تصدیق کرنے والے بھی ایک بڑی تعداد میںموجود ہیں۔ جو نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کو پانی کا پہلا قطرہ قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیںکہ واقعات اور مسائل اس سے کہیں زیادہ ہیں، جن کی تحقیقات کی جانی چاہیے اور بالخصوص خواتین کو سماجی تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ انکا جنسی استحصال کرنے کی کوشش کرنے والے عناصر کو فوری نہ صرف بے نقاب کیا جا سکے بلکہ قرار واقعی سزاؤں کا اطلاق کرتے ہوئے مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک کیا جا سکے۔
تاہم ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ پاک فوج ہی کی ایماپرکچھ افراد مذکورہ رپورٹ کے خلاف سوشل میڈیا پر صحافیوںکی ٹرولنگ کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مستقبل میںایسی رپورٹنگ سے اجتناب کیا جائے۔ جس کے پیچھے سوشل میڈیا پر کچھ صارفین کے خیال میںبنکرز کی تعمیر کے دوران ہونے والی کرپشن، جنگلات کی فروخت، قیمتی پتھروں کے کاروبار سمیت دیگر مالی مفادات کو پردے میںرکھنے کی کوشش پنہاں ہے۔ کچھ سوشل میڈیا صارفین کا خیال ہے کہ اگر کنٹرول لائن کے نزدیکی علاقوںکے سماجی مسائل پر رپورٹنگ کےلئے عالمی صحافتی اداروںکو رسائی مل جاتی ہے تو وہ مالیاتی مفادات پر مبنی ایشوز پر رپورٹنگ کرنے سے بھی نہیںکترائیں گے۔ جس وجہ سے انکی ان علاقوںمیں رسائی کو روکنے اور عالمی صحافتی اداروںکے مقامی رپورٹرز کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ آئندہ ان علاقوں سے متعلق تحقیقاتی صحافتی کام کرنےسے گریز ہی کریںتو بہتر ہے۔
ایک صحافی نے روز نامہ جدوجہد سے گفگتگو کے دوران کہا کہ نیویارک ٹائمز کا کوئی بھی رپورٹ شائع کرنے کا ایک پورا پراسیس ہوتا ہے۔ وہ مسئلے کی شناخت، اس سے متعلق افراد اور ذمہ داران کی تصدیق اور پوری تحقیقات کے عمل کے بغیر کوئی بھی رپورٹ شائع نہیںکرتے، اسی لئے ایک رپورٹ کی تیاری میںنہ صرف کئی دن لگتے ہیںبلکہ ایک سے زائد رپورٹرز اور ایڈیٹرز کے مسلسل لیزان کےدوران ایک رپورٹ کی تیاری ممکن ہوتی ہے۔
مذکورہ رپورٹ سے متعلق انکا کہنا تھا کہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، جس کو رپورٹ میںمکمل حقائق کے ساتھ سامنے لایا گیا ہے، مذکورہ رپورٹ کسی ادارے کے خلاف نہیںہے اور نہ ہی کسی ادارے کے خلاف کچھ لکھا گیا ہے، چند عناصر جان بوجھ کر اسے پاکستان کے دفاعی ادارے سے منسوب کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔ تاہم اگر حکومت کو اس رپورٹ میں کچھ غلط لگتا ہے تو وہ نہ صرف نیویارک ٹائمز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیںبلکہ معاملہ کی تحقیقات کر کے اصل حقائق کو بھی سامنے لا سکتے ہیں۔
تاہم انہوںنے ٹرولنگ کے ذریعے ہراساںکئے جانے کے عمل کو تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ ایسا عمل نہیںہونا چاہیے۔ ایک رپورٹ کو غلط رنگ دیکر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کرنے سے نہ صرف صحافیوں کو پیشہ وارانہ کام سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے بلکہ رپورٹ کی اساس کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے۔